1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی ادبی میلہ: پاکستان کا ’پر امن اور تعلیم یافتہ چہرہ‘

17 فروری 2013

کراچی میں 15 فروری کو شروع ہونے والا چوتھا سالانہ ادبی میلہ اتوار کے روز بیچ لگژری ہوٹل میں اختتام پزیر ہو گیا۔ اس ادبی میلے میں 12 ممالک کے 200 سے زائد ادیبوں اور مصنفین نے شرکت کی۔

https://p.dw.com/p/17flQ
Bild: Shadi Khan Saif
تصویر: DW

کراچی میں اس تین روزہ ادبی میلے کا انعقاد آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اس بین الاقوامی میلے میں پاکستان کے علاوہ امریکا، برطانیہ، جرمنی اور جنوبی افریقہ سمیت کئی ممالک سے شاعر، ادیب، دانشور اور اسکالرز شریک ہوئے۔ تین دن تک جاری رہنے والے اس فیسٹول میں مختلف موضوعات پر ورکشاپس، تقاریر اورمباحثوں کے علاوہ مشاعرے، مختلف کتابوں سے منتخب اقتباس سنانے، گلوکاری اور داستان گوئی کے علاوہ بچوں کے لئے تھیٹر پرفارمنس، رقص، مصوری اور پتلی تماشے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کتب میلہ بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کی منیجنگ ڈائریکٹر اور کراچی ادبی میلے کی منتظمہ امینہ سید کے مطابق اس میلے میں فن و ادب سے وابستہ افراد کے لیے تقریباً دو سو مختلف نشستوں کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس طرح ملکی و غیر ملکی مبصرین اور قارئین کے درمیان براہ راست روابط اور قارئین کو ان کے پسندیدہ مصنفین سے ملاقات کا موقع فراہم کیا گیا۔ اس کے علاوہ میلے میں 23 نئی کتابوں کی بھی رونمائی کی گئی جسے پاکستان میں ادب کے فروغ کی علامت کہا جا سکتا ہے۔

Deutsche Welle, Shadi Khan, Februar 2013
تقریباً دو سو مختلف نشستوں کا انعقاد کیا گیا تھاتصویر: DW/S. Khan

میلے میں شریک کئی غیر ملکی مبصرین نے اس فیسٹیول کو دنیا میں پاکستان کا پُرامن اور تعلیم یافتہ چہرہ دکھانے میں مددگار قرار دیا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے پاکستان کے لیے بیوروچیف Declan Walsh کہتے ہیں کہ کراچی میں ہونے والا یہ میلہ ملک میں ادب کے فروغ کی علامت ہے: ’’پاکستان میں گزشتہ دہائی کے دوران ادب لکھنے والوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے، خصوصاً انگریزی زبان میں لکھنے والے کئی لکھاری سامنے آئے ہیں، مثال کے طور پر محمد حنیف، ندیم اسلم اور کاملہ شمسی جنہیں نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا اور برطانیہ میں بھی پزیرائی ملی ہے۔ یہ میلہ اسی جانب اشارہ کرتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ پاکستان میں ادب کا فروغ ہو رہا ہے۔‘‘

امریکی ڈاکومنٹری میکر Cathryn Collinsکے خیال میں اس طرح کے ادبی میلے دنیا کو پاکستان کا خوبصورت چہرہ دکھانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں: ’’ہمیں امریکا اور مغرب میں (پاکستان کے) کے اس شان دار فنکارانہ ثقافت کے بارے میں زیادہ خبریں نہیں ملتیں، جو ناقابل یقین حد تک وسیع ہے۔ نہ ہی کثیر تعداد میں موجود ایسی کہانیوں اور تخلیقی لوگوں کے بارے میں معلومات ہم تک پہنچتی ہیں جو مصوری کر رہے ہیں، جو کتابیں لکھ رہے ہیں یا جو ماہرین تعمیرات ہیں اور غیر معمولی کام کر رہے ہیں۔ بعض مصنفین کا کام وہاں پہنچتا بھی ہے تو وہ بہت کم ہے۔ مگر یہاں ایسے ماحول میں ان لوگوں کی کثیر تعداد کے درمیان موجود ہونا بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘‘

Bild: Shadi Khan Saif
'لوگوں نے تشدد کی نفی کرتے ہوئے آگے بڑھنے اور اس تشدد کو برداشت نہ کرنے جیسے واضح پیغامات دیے ہیں'تصویر: DW

فلسطین سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر Izzeldin Abuelaish نے اس ادبی میلے کو تشدد کے خلاف اجتماعی آواز قرار دیا: ’’یہ  فیسٹیول لوگوں میں خیالات کے تبادلے اور اس بات کی آگاہی پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔  لوگوں نے تشدد کی نفی کرتے ہوئے آگے بڑھنے اور اس تشدد کو برداشت نہ کرنے جیسے واضح پیغامات دیے ہیں۔‘‘

فیسٹیول کے شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان جسیے ملک میں، جہاں نظام تعلیم اور معیار تعلیم میں بہتری کی کہیں زیادہ گنجائش موجود ہے، اس نوعیت کے میلوں کا انعقاد قابل ستائش بات ہے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں