1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈیموکریٹس کی شکست، اوباما مشکل میں

Michael Knigge / امجد علی5 نومبر 2014

امریکا میں کانگریس کے انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کی کامیابی کے بعد اب صدر اوباما کو اپنے دورِ اقتدار کے باقی ماندہ دو برسوں میں اپنی سیاسی کامیابیوں کو بچانے کا مشکل مرحلہ درپیش ہے، ڈی ڈبلیو کے مشائیل کنیگے کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/1Dh7i
Barack Obama
تصویر: picture alliance/abaca/O. Douliery

ری پبلکن پارٹی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت کے حصول کا جو ہدف 2010ء اور 2012ء میں حاصل نہیں کر پائی تھی، وہ اُس نے اب تیسری کوشش میں حاصل کر لیا ہے۔ تمام تر حالات اسی صورتِ حال کی جانب اشارہ کر رہے تھے یعنی ایک تو وائٹ ہاؤس میں ایک ایسا ڈیموکریٹ صدر، جس کی مقبولیت کا گراف تقریباً جورج ڈبلیو بُش کی سطح تک گر چکا ہے۔ دوسرے یہ بات بھی ری پبلکنز کے حق میں رہی کہ سینیٹرز کا انتخاب زیادہ تر ایسی ریاستوں میں ہونا تھا، جو قدامت پسند مانی جاتی ہیں۔ اسی طرح رائے دہندگان کا یہ عمومی رجحان بھی اس صورتِ حال کا سبب بنا کہ وہ ہمیشہ درمیانی مدت کے انتخابات میں اُس وقت کے صدر کی جماعت کی حمایت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

مثبت توقعات کے حامل حلقے اب یہ امید کر رہے ہیں کہ کانگریس میں ری پبلکنز کو ملنے والی نئی طاقت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ وائٹ ہاؤس کے ہر منصوبے کے راستے میں رکاوٹیں حائل کرنے کی بجائے اپنی اب تک کی حکمتِ عملی پر نظر ثانی کریں گے اور عملاً مفلوج ہو کر رہ جانے والے صدر کے ساتھ تعاون کریں گے۔ ایسے حلقے اپنی مثبت توقعات کے جواز میں کہتے ہیں کہ ماضی میں سب سے زیادہ قانون سازی اُنہی اَدوار میں ہوئی، جب صدر اور کانگریس اقتدار میں برابر کے شریک تھے۔ مزید یہ کہ ری پبلکن پارٹی اپنے ووٹرز کو یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ محض ایک رکاوٹیں ڈالنے والی پارٹی نہیں ہے بلکہ تعمیری سیاست کرنا بھی جانتی ہے۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار مشائیل کنیگے
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار مشائیل کنیگےتصویر: DW/P. Henriksen

تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے اندر موجود ٹی پارٹی دھڑے کو عام امریکیوں کے حالات میں بہتری سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ یہ دھڑا کانگریس کے ری پبلکن ارکان کو ایک ایسی سخت گیر اپوزیشن کے طور پر سامنے لانا چاہتا ہے، جس میں پوری جماعت کے مفادات کی بجائے سخت موقف کے حامل علاقائی رہنماؤں کے بلند بانگ مطالبات کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ اس دھڑے کو اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے پارٹی کو بحیثیت ِ مجموعی یا پھر 2016ء کے صدارتی انتخابات میں نقصان پہنچ سکتا ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ اوباما کو اپنے دورِ صدارت کے باقی ماندہ دو برسوں میں کانگریس کی جانب سے سخت مزاحمت کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد سے اوباما یہ بات جان چکے ہیں کہ ری پبلکنز کے ساتھ مفاہمت عملاً ناممکن ہے۔ تب سے وہ زیادہ سے زیادہ ایسے صدارتی فرمانوں کے ذریعے حکومت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جن کے لیے کانگریس کی اجازت ضروری نہیں ہوتی۔ نہ صرف یہ رجحان آئندہ زیادہ زور پکڑتا جائے گا بلکہ اوباما ری پبلکنز کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے ویٹو کا حق استعمال کرنے پر بھی مجبور ہو جائیں گے اور یوں ملک کا سیاسی ماحول اب تک کے مقابلے میں اور بھی زیادہ زہر آلود ہو جائے گا۔

منگل چار نومبر کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں اب اپوزیشن کی ری پبلکن پارٹی کو سینیٹ پر بھی مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا ہے
منگل چار نومبر کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں اب اپوزیشن کی ری پبلکن پارٹی کو سینیٹ پر بھی مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا ہےتصویر: AP

ان حالات میں اوباما کو نئے منصوبے شروع کرنے کی بجائے اپنے پہلے سے متعارف کروائے گئے دو اہم ترین منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اُنہیں صحت کے شعبے میں اپنی تاریخی اصلاحات کو ری پبلکنز کی گرفت میں آنے سے بچانا چاہیے۔ اگرچہ ان اصلاحات کے نتیجے میں ہیلتھ انشورنس سے محروم امریکیوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی ہوئی ہے لیکن ری پبلکنز ان اصلاحات کو منسوخ کروانا چاہتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر اوباما کو ایران کے ساتھ ممکنہ طور پر تاریخی ایٹمی سمجھوتے کو بھی جلد از جلد تکمیل تک پہنچانا چاہیے، گو یہ کام کچھ مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ اگرچہ اوباما صدارتی فرمان کے ذریعے ایک محدود مدت کے لیے اقتصادی پابندیاں ہٹا سکتے ہیں تاہم ایک باقاعدہ توثیق شُدہ معاہدے کے لیے اُنہیں کانگریس کی رضامندی درکار ہو گی۔ تاہم اگر اوباما ایران کے ساتھ کوئی عبوری سمجھوتہ طے کرنے میں کامیاب ہو گئے اور وہ نافذ العمل بھی ہو گیا تو پھر ری پبلکنز کے لیے اُسے منسوخ کرنا مشکل ہو جائے گا۔

2008ء میں سینیٹر اوباما نے صدارتی انتخابات جیتے تھے اور اُن کی جماعت نے کانگریس کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اب چھ سال بعد صدر اوباما کے لیے لازمی ہو گیا ہے کہ وہ ری پبلکنز ارکان کی اکثریت رکھنے والی کانگریس کے مقابلے پر اپنی اب تک کی کامیابیوں کا ہر ممکن طریقے سے دفاع کریں۔