چین چاند پر، خلا میں چینی عزائم
18 دسمبر 2013ایک تاریک آڈیٹوریم میں تقریباً ڈھائی سو چینی نوجوان ایک پروجیکٹر سے برآمد ہو کر سکرین پر پڑنے والی نیلی روشنی اور نمودار ہوتی تصاویر اور الفاظ کو بغور دیکھنے میں مصروف تھے۔ وہ چین کے لونر پروجیکٹ کے بانی اویانگ زی ژوان کی ملک کے خلائی پروگرام کے مستقبل سے متعلق گفتگو کو انہماک سے سن رہے تھے۔
ایک ایسے وقت پر کہ جب امریکا اور دوسرے ممالک خلائی پروگرامز کے اخراجات کی مد میں نمایاں کمی کر رہے ہیں، چین اس شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کر کے خود کو ایک ابھرتی ہوئی سپر طاقت کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے، جیسا امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے زمانے میں تھا۔ تب خلائی تحقیق کے شعبے میں سنگ میل عبور کر کے دونوں ممالک ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں مصروف رہتے تھے۔
بیجنگ حکومت نوجوانوں کی دلچسپی خلائی شعبے کی جانب مبذول کرانے کے لیے اپنے گزشتہ روور مشنز چانگ ای ون اور چانگ ای ٹو سے حاصل کردہ تصاویر، ماڈلز اور خلائی راستوں کو مختلف سیمنارز اور ورکشاپس میں دکھا رہی ہے۔ ہفتے کے روز چاند کی سطح پر اترنے والے نئے روبوٹ مشن چانگ ای تھری جیڈ ریبٹ سے حاصل کردہ تازہ تصاویر بھی سامنے لائی جا رہی ہیں اور کچھ ایسی خیالی تصاویر بھی دکھائی جا رہی ہیں، جن میں چاند کی سطح پر ایک خلانورد نظر آ رہا ہے، جو وہاں سرخ چینی پرچم گاڑ رہا ہے۔
رواں ہفتے بیجنگ میں معروف چینی سائنسی ویب سائٹ گوکر کی جانب سے نوجوانوں کے ساتھ 78 سالہ اویانگ زی ژوان کی اس ملاقات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اویانگ زی ژوان چینی خلائی پروگرام کے سابق سربراہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ’کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی ہماری بھرپور حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ ہم چاند سے بھی آگے بڑھیں۔ چین پہلے ہی ڈیپ اسپیس ایکسپلوریشن کی اہلیت کا حامل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چین پورے نظام شمسی کو مسخر کرے گا۔
اویانگ کی رنگ برنگی تصاویر سے مرصع اس پریزنٹیشن کو نوجوانوں نے خوب سراہا اور اس شعبے میں اپنی دلچسپی کا بھی اظہار کیا۔
چین میں زیادہ تر افراد چاند کی جانب اس جست کو پوری قوم کے لیے قابل فخر سمجھتے ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ اس معاملے میں چین امریکا کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ بیجنگ میں قائم انٹرنیشنل اسپیس انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ماؤریسیو فلانگا کے مطابق، ’مغربی خلائی سائنسدان یہ بات جانتے ہیں کہ چین خلا کو مسخر کرنے کی اہلیت کا حامل ہے اور اسی لیے وہ چینی سائنسدانوں اور خلائی پروگرام کا تعاون چاہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ چینی سمجھتے ہیں کہ وہ امریکا اور روس کے مدمقابل کھڑے ہیں اور ایک عالمی طاقت بننے کو ہیں۔
واضح رہے کہ سن 2010ء میں چین نے پہلی مرتبہ ایک انسان کو خلا میں بھیجا تھا جب کہ وہ سن 2020 تک زمینی مدار میں گردش کرنے والا اپنا ایک مستقل خلائی اسٹیشن قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ وہی وقت ہے کہ جب امریکا، روس، جاپان، کینیڈا اور یورپ کے خلائی اسٹیشنز اپنی مدت پوری کر کے ریٹائر ہو جائیں گے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا نے خلائی تحقیق کے شعبے میں ناسا کو مہیا کیے جانے والے سرمایے میں نمایاں کمی کر دی ہے۔