1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین، سودے بھی بڑے، بدعنوانی بھی

بینش جاوید2 اکتوبر 2013

چین کی تیزی سے بڑھتی معشیت میں تیل اور گیس کی بڑی سرکاری کمپنیوں کا بھی اہم حصہ ہے۔ تیل کی صنعت کی جانب سے جاری ڈیٹا کے مطابق چین کی پیٹروکیمیکل انجینئرنگ مارکیٹ کا حجم سال دو ہزار سولہ تک چالیس ارب ڈالر ہو جائے گا۔

https://p.dw.com/p/19stg
تصویر: picture-alliance/dpa

چین سال 2012ء سے لے کر 2016ء تک کے عرصے میں تیل کی ریفائنری کے شعبے میں توسیعی منصوبوں میں پینسٹھ سے اسی ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرے گا۔ بڑے پیمانے پر کام کرنی والی کمپنیو‌ں میں مالی بدعنوانیوں کے پیمانے بھی بڑے ہیں۔ ماہرین کی رائے میں چین کے صدر شی جن پنگ کو سرکاری کمپنیوں میں مالی بدعنوانیوں سمیت کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور وہ سرکاری کمپنیوں کی جانب سے انجینئرنگ، تعمیرات اور خرید وفروخت کے معاہدوں میں بدعنوانیوں کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

چین میں توانائی کے شعبے میں بے پناہ سرمایہ کاری کی جا رہی ہے
چین میں توانائی کے شعبے میں بے پناہ سرمایہ کاری کی جا رہی ہےتصویر: AP

اس کی ایک مثال گزشتہ برس مارچ میں چین کی تیل کی ایک بڑی سرکاری کمپنی سائنوپیک کی جانب سے اپنے ملازمین کے لیے جاری بیان ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کو سائنوپیک کے ایک ملازم نے بتایا کہ ایشیا کی تیل کی تیل صاف کرنے والی سب سے بڑی کمپنی سائنوپیک کی فوجیان صوبے میں موجود شاخ نے اپنے کمپنی ملازمین کے لیے 2012ء میں جاری کردہ ایک بیان میں کہا تھا کہ سائنوپیک میں انجنئیرنگ اور تعمیرات کے شعبے میں سب سے زیادہ مالی بد عنوانیاں کی جا رہی ہیں اور تمام ارکان خصوصی طور پر اہم پوزیشنز پر تعینات افسران کسی بھی قسم کی کرپشن میں ملوث ہونے سے باز رہیں۔ سائنوپیک نے یہ بیان چین کے جنوب مشرقی صوبے فوجیان میں حکومت کی منظوری سے نو سو ملین ڈالر کی لاگت سے ریفائنری کی توسیع کا ایک منصوبہ ملنے کے بعد جاری کیا تھا۔

سائنوپیک کے سابق چیئرمین چین ٹونگ ہائی کو سال 2009ء میں بتیس ملین ڈالر رشوت لینے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے بعد سے سائنوپیک نے کرپشن ختم کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے سائنوپیک کی ویب سائٹ میں بھی لکھا گیا ہے کہ سائنوپیک میں ٹینڈر، کانٹریکٹس ، ذیلی کانٹریکٹنگ اور خرید و فروخت کے شعبوں میں کرپشن کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ برس اگست میں تیل اور گیس کی سرکاری کمپنی پیٹرو چائنہ کےکئی سابق حکام کے خلاف کرپشن کے الزامات میں تحقیقات کی خبریں آئی تھیں، جس کے بعد اب ساری نظریں سائینوپیک سے زیادہ پیٹرو چائنہ پر لگی ہیں۔ چینی حکام نے پیٹرو چائنہ اور اس کی مرکزی کمپنی چائنہ نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن کے پانچ سابق سینئر افسران پر مالی بد عنوانی کے الزامات میں تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔ اس سے یہ تاثر ملا ہے کہ چین کی سب سے طاقتورسرکاری انڈسٹری میں کرپشن کے خاتمے کے لیے چین کے صدر کسی بھی حد تک جائیں گے۔ چین کی کمیونسٹ جماعت کے سنٹرل کمیشن برائے ڈسپلن نے گزشتہ ہفتے سرکاری خرید و فروخت کے طریقے کو تبدیل کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔

پیٹرو چائنہ کے خلاف بدعنوانی کے الزامات میں تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ نئے چینی صدر کرپشن کو روکنے کے لیے آخری حدوں تک بھی جانے کا عزم رکھتے ہیں
پیٹرو چائنہ کے خلاف بدعنوانی کے الزامات میں تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ نئے چینی صدر کرپشن کو روکنے کے لیے آخری حدوں تک بھی جانے کا عزم رکھتے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb

سی این او او سی لمیٹڈ میں کام کرنے والی چیف ریسرچر چین ویڈونگ نے سرکاری کمپنیوں کی جانب سے انجینئرنگ، مصنوعات کی خرید و فروخت اور تعمیرات کے شعبے میں کیے جانے والے معاہدوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طاقتور لوگوں کا اہم پوزیشنز پر تعینات ہونا ہی کرپشن کی اصل وجہ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ٹینڈر کے اجراء کے بارے میں عوام کو آگاہ تو کیا جاتا ہے لیکن ٹینڈر جیتنے والے کے انتخاب کا مرحلہ شفاف نہیں ہوتا۔

اس صنعت سے تعلق رکھنے والے حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ افسران، جو ٹینڈر پیش کرتے ہیں، اکثر رشوت لے کر کانٹریکٹس نوازتے ہیں یا پھر اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کو نوازتے ہیں۔ چین کے سرکاری ٹی وی کے مطابق حال ہی میں چین کے ایک سابق وزیر ریلوے کو سزائے موت سنائی گئی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 1986ء سے لے کر 2011ء تک 64.6 ملین یوآن کی رشوت لے کر گیارہ افراد کوریلوے کے کانٹریکٹ دلائے اور ترقیاں دلائیں۔

چین میں یورپی یونین کے چیمبر آف کامرس کے مطابق سال دو ہزار گیارہ میں چین کی سرکاری کمپنیوں نے 1.51 ٹرلین ڈالر کے ٹینڈر جاری کیے لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے ٹینڈر انجینئرنگ، مصنوعات کی خرید و فروخت اور کتنے تعمیرات کے شعبے میں دیے گئے۔ نہ ہی ان شعبوں میں کی جانے والی کرپشن کی تحقیقات کے حوالے سے معلومات موجود ہیں۔ یورپی یونین کی جانب سے چین میں سرکاری سطح پر ہونے والی خرید و فروخت کو ہدف تنقید بنایا جا چکا ہے اور اس عمل میں بین الاقوامی اداروں کی شمولیت کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔