1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس حملے کے بعد شارلی ایبدو کا پہلا شمارہ

عاطف توقیر14 جنوری 2015

فرانسیسی طنزیہ ہفت روزہ چارلی ایبدو کا تازہ شمارہ شائع ہو گیا ہے۔ اس کے سرورق پر پیغمبر اسلام کا خاکہ شائع کیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسی اخبار کے دفتر پر حملے میں آٹھ صحافیوں اور خاکہ گروں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1EJti
تصویر: Getty Images/C. Furlong

بدھ کے روز اس ہفت روزہ جریدے کی تین ملین کاپیاں شائع کی گئی ہیں، جس کے صفحہ اول پر پیغمبر اسلام کی آنکھ سے ٹپکتا ہوا ایک آنسو دکھایا گیا ہے، ساتھ ہی درج ہے، ’سب کچھ معاف کیا گیا۔ میں شارلی ہوں۔‘

اس میگزین کی اشاعت کے ساتھ ہی پیرس کے مختلف علاقوں میں چند ہی ثانیوں میں اس اخبار کی تمام کاپیاں فروخت ہو گئیں۔

خیال رہے کہ پیرس حملے کے بعد دنیا بھر میں شارلی ایبدو اور اس کے صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے آن لائن اور آف لائن مہم جاری ہے، جس کا نعرہ ہے، ژے سوئی شارلی یا میں شارلی ہوں۔‘ اس مہم میں فرانس اور دنیا بھر سے کئی ملین افراد شریک ہیں۔

Charlie Hebdo Verkauf in Paris 14.01.2015
اس اخبار کا تازہ شمارہ چند ہی منٹوں میں فروخت ہو گیاتصویر: DW/B. Riegert

اس اخبار پر حملہ آور ہونے والے مسلح افراد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے ماضی میں اس اخبار میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کا بدلہ لیا۔ اس حملے کی ویڈیو فوٹیجز میں بھی حملہ آوروں کو ’اللہ اکبر‘ اور ’ہم نے پیغمبر کا بدلہ لے لیا‘ جیسے نعرے لگاتے سنا جا سکتا تھا۔

یہ بات اہم ہے کہ اس سے قبل شارلی ایبدو کی ساٹھ ہزار کاپیاں شائع ہوتی تھیں، جن میں سے کوئی تیس ہزار بکتی تھیں تاہم یہ نیا جریدہ تین ملین کی تعداد میں فرانسیسی زبان کے علاوہ انگریزی، ہسپانوی، اطالوی، عربی اور ترکی زبانوں میں شائع کیا گیا ہے۔

اخبار فروخت کرنے والوں کے مطابق اس اشاعت کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ پیرس میں اخبارات فروخت کرنے والی ایک خاتون نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’یہ غیر معمولی بات ہے کہ میں نے صبح پونے چھ بجے جب دکان کھولی تو ساٹھ تا ستّر افراد پہلے ہی سے قطار بنائے کھڑے تھے۔ میں نے اس سے قبل ایسا کبھی نہیں دیکھا۔ پندرہ ہی منٹ میں میری دکان پر دستیاب اس اخبار کی تمام 450 کاپیاں فروخت ہو گئیں۔‘

اس میگزین کا بچ جانے والا عملہ پیرس میں لبریشن اخبار کے دفتر میں منتقل ہو چکا ہے۔ اس اخبار سے وابستہ افراد نے دفتر کی منتقلی کو ایک انتہائی جذباتی تجربہ قرار دیا۔