پاکستانی مہاجرین کے لیے امدادی سامان مقامی بازاروں میں
27 اکتوبر 2014شمال مغربی پاکستان میں قبائلی علاقوں کے داخلی مہاجرت پر مجبور شہریوں کے لیے بحالی اور امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ حکومتی محکمے، غیر ملکی امدادی تنظیمیں اور مقامی غیر سرکاری ادارے سبھی متاثرین کی مدد میں مصروف ہیں۔ جنگ اور ناساز گار حالات کی وجہ سے مہاجرت کرنے والے خاندانوں میں ہر مہینے ان اداروں کی طرف سے راشن اور دوسری اشیائے ضرورت مفت تقسیم کی جاتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہی امدادی سامان بڑی مقدار میں خیبر پختونخوا کے کئی بازاروں میں فروخت بھی ہو رہا ہے۔
متاثرین کی مدد کے لیے کوشاں ورلڈ فوڈ پروگرام کے فلیڈ کوآرڈینیٹر ارشد رحیم نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں موجود راشن پوائنٹ سے ہر ماہ قریب چودہ ہزار متاثرین میں امدادی اشیاء تقسیم کی جاتی ہیں، جن میں کرم ایجنسی، اورکزئی ایجنسی اور وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے لوگ شامل ہیں۔ ان متاثرین کو امدادی پیکج کی شکل میں آٹا، گھی، دالیں، چینی، نمک اور دوسری اشیائے خوارک فراہم کی جاتی ہیں، جو ہر خاندان کے لیے مہینے بھر کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگ اس امدادی سامان کو بازاروں میں فروخت کر رہے ہیں جو غیر قانونی کام ہے۔
ارشد رحیم کا کہنا ہے کہ امدادی سامان ان متاثرین کو اس لیے دیا جاتا ہے کہ متاثرہ خاندانوں کے سربراہان پر پڑنے والا اضافی مالی بوجھ کم کیا جاسکے لیکن بازاروں میں اس امدادی سامان کا کاروبار تشویشناک رجحان ہے۔ ارشد رحیم کہتے ہیں، ”ہم یہاں ان کو نصیحت بھی کرتے ہیں اور اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ یہ اشیائے خوراک گھر لے جائیں، یہ ان کی ضرورت کے لیے ہیں۔ ہم نے ضلعی حکومت کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا ہے۔ پولیس بھی تعینات کی گئی ہے۔ لیکن ابھی تک اس رجحان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔“
ارشد رحیم کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کی طرف مہیا کردہ کسی بھی امدادی پیکج کی اوسط قیمت آٹھ سے نو ہزار روپے تک ہوتی ہے جبکہ بازاروں میں مقامی تاجر ان متاثرین سے یہ پیکج دو سے تین ہزار روپے تک میں خرید لیتے ہیں۔
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے نادرخان کے بقول ان کے خاندان کو راشن کے دو پیکج ملتے ہیں کیونکہ ان کے اہل خانہ کی کُل تعداد بیس سے ذیادہ ہے۔ نادر خان کے مطابق وہ مجبورا راشن کا ایک پیکج بازار میں فروخت کر دیتے ہیں کیونکہ روزمرہ کی دیگر ضروریات کے لیے بھی انہیں نقد رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔
نادر خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”آٹا، گھی، چاول وغیرہ تو کسی کے پاس بھی فالتو نہیں ہوتے۔ لیکن ہماری مجبوری ہے۔ ہم ایک راشن پیکج بیچ دیتے ہیں اور ایک سے گھر چلاتے ہیں۔ ایک پیکج بیچ کر ہمیں تین ہزار روپے تک دیگر اخراجات کے لیے مل جاتے ہیں۔“
نادر خان کا مزید کہنا ہے کہ راشن کے علاوہ بھی وہ گھر والوں کی ضروریات کے پیش نظر امدادی تنظیموں کی طرف دی گئی دوسری اشیاء بھی بازار میں سستے داموں فروخت کر چکے ہیں۔ ایسے ساز و سامان میں بجلی کے پنکھے، چولہا، ٹینٹ، بستر، کمبل اور مچھردانیاں وغیرہ شامل تھیں۔
صوبے کے دوسرے علاقوں کی طرح کوہاٹ شہر میں بھی اکثر دکانوں پر متاثرین کا امدادی سامان سرعام بک رہا ہے۔ ایک مقامی دکان پر راشن بیچنے کے لیے آئے ہوئے نوجوان وزیر گل کا کہنا تھا کہ مزدوری کرتے ہوئے اس کا ایک بازو ٹوٹ گیا، جس کے علاج کے لیے اس کے پاس رقم نہیں ہے۔ اسی لیے وہ راشن فروخت کر کے اپنے لیے ادویات خریدے گا۔ وزیر گل کے بقول اسے علم ہے کہ اسے یہ راشن بیچ کر بہت کم رقم ملتی ہے لیکن اس وقت اسے ایسا کرنا ہی واحد راستہ نظر آ رہا ہے۔
جب ایک مقامی دکاندار سے اس کی دکان میں موجود ایسی اشیاء کے بارے میں پوچھا گیا، جن پر مختلف امدادی تنظیموں کے لوگو اور نام درج تھے، تو اس دکاندار کا کہنا تھا، ”کچھ متاثرین دور دراز علاقوں سے آتے ہیں جس کی وجہ سے وہ یہ سامان ساتھ نہیں لے جا سکتے۔ اس پر کرایہ بہت زیادہ لگتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہم ان کو اس کی اچھی قیمت ادا کرتے ہیں جس کے بعد یہ لوگ اپنے ہی علاقے میں اچھی کوالٹی کی اشیاء خرید سکتے ہیں۔ اس لیے وہ اس سامان کو یہیں بیچ جاتے ہیں۔“
مختلف اداروں کی امدادی سرگرمیاں، انتظامیہ کے دعوے اور جنگ کی وجہ سے نکل مکانی کرنے والے متاثرین کی مجبوری اپنی جگہ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شمال مغربی پاکستان کے کئی بازاروں میں ان متاثرین کا امدادی سامان کھلے عام بک رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر ابھی تک کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات نہیں کیے گئے۔