1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی موسیقی: کوک سٹوڈیو کا اہم کردار

تنویر شہزاد، لاہور16 جنوری 2014

پاکستان میں ایک معروف ملٹی نیشنل کمپنی کے مالی تعاون سے جاری موسیقی کے پروگرام کوک سٹوڈیو میں علی عظمت، راحت فتح علی خان، عالمگیر، ابرارالحق، صنم ماروی، سائیں ظہور اور عاطف اسلم سمیت کئی پاکستانی گلوکار حصہ لے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1ArUs
عارف لوہار کہتے ہیں کہ کوک سٹوڈیو کے ساتھ کام کے لمحات اُن کی زندگی کے یادگار لمحات تھے
عارف لوہار کہتے ہیں کہ کوک سٹوڈیو کے ساتھ کام کے لمحات اُن کی زندگی کے یادگار لمحات تھےتصویر: cc-by-bc-sa/Lorenz Khazaleh 3.0

آج کل کوک سٹوڈیو کا چھٹا سیزن جاری ہے۔ اس پروگرام موسیقی کے امور پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کوک سٹوڈیوپاکستان کی میوزک انڈسٹری کی بحالی میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

پاکستان میں کوک سٹوڈیو کا آغازسن دو ہزار آٹھ میں ہوا۔ معروف میوزیکل بینڈ وائٹل سائنز سے شہرت پانے والے گٹارسٹ روحیل حیات کی سربراہی میں شروع ہونے والے اس پروگرام میں مختلف علاقوں کی آوازوں کو اکٹھا کر کے نئے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔

کوک سٹوڈیو کے ساتھ کام کرنے والوں میں راحت فتح علی خان بھی شامل ہیں
کوک سٹوڈیو کے ساتھ کام کرنے والوں میں راحت فتح علی خان بھی شامل ہیںتصویر: DW/W. Hasrat-Nazimi

کوک سٹوڈیو کے پروگراموں میں نئے فنکاروں کے ساتھ ساتھ پرانے فنکار بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس پروگرام کے ذریعے قوالی، لوک گیت، بھنگڑا اور صوفیانہ کلام سمیت مختلف قسم کے مقامی گیت جدید سازوں کے ساتھ تیار کر کے مختلف ٹی وی چینلز پر پیش کیے جاتے ہیں۔ کوک سٹوڈیو کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ فیس بک پر اس کے پرستاروں کی تعداد دو اعشاریہ نو ملین تک پہنچ چکی ہے۔

ایک مقامی ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر عاصم رضا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کوک سٹوڈیو نے پاکستانی موسیقی کو جدت سے ہمکنار کیا ہے۔ ان کے بقول کوک سٹوڈیو کے گیت اور ویڈیوز بہترین کوالٹی سٹینڈرڈز پر تیار کیے جاتے ہیں۔ ان کے لیے روشی، ادارت اور عکس بندی کے لیے جدید ترین آلات منفرد انداز میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ عاصم کے مطابق کوک سٹوڈیو سے نہ صرف نئے شائقین کو اچھے گیت سننے کو ملے بلکہ اس سے نئے ڈائریکٹرز کو سیکھنے کا بھی موقع ملا۔ مزید یہ کہ بھارتی گیت سننے والے پاکستانی شائقین اب پھر سے مقامی موسیقی کی طرف لوٹنے لگے ہیں کیونکہ انہیں پرانے گیت نئے انداز میں سننے کا موقع مل رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ریشماں کا گیت لمبی جدائی اور عارف لوہار کی جگنی عرصے سے گائے جا رہے تھے لیکن کوک سٹوڈیو نے انہیں مقبولیت کی جن بلندیوں تک پہنچایا ہے اس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ اسی طرح لوک گلوکار سائیں ظہورکو بھی شہرت کی نئی بلندیوں پر پہنچانے میں کوک سٹوڈیو نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

فیس بک پر کوک سٹوڈیو کے پرستاروں کی تعداد دو اعشاریہ نو ملین تک پہنچ چکی ہے
فیس بک پر کوک سٹوڈیو کے پرستاروں کی تعداد دو اعشاریہ نو ملین تک پہنچ چکی ہےتصویر: CokeStudio

گلوگار ابرارالحق نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا کوک سٹوڈیو میں کام کرنے کا تجربہ بہت اچھا رہا، ان کے گانوں کی مقبولیت بڑھی اور اب انہیں شوز کے آرڈرز بھی زیادہ ملنے شروع ہو گئے ہیں۔ ان کے بقول کوک سٹوڈیو سے پاکستانی موسیقی کی صنعت کی بحالی کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ ابرار الحق نے بتایا:’’ہم ان گیتوں کے ذریعے امن اور بھائی چارے کا صوفیانہ پیغام عام کر رہے ہیں۔ سامان وہی ہے،کوک سٹوڈیو نے صرف پیکنگ بدلی ہے۔‘‘

کوک سٹوڈیو کے ساتھ کام کرنے والے ایک اور پاکستانی گلوکار عارف لوہار نے بتایا کہ جس دوران اُنہوں نے کوک سٹوڈیو کے ساتھ کام کیا، وہ ان کی زندگی کے یادگار لمحات تھے:’’ہم دیہات میں گانے والے لوگ تھے، کوک سٹوڈیو ہمیں پہلے شہر میں لے کر آیا اور پھر دنیابھرمیں پہنچا دیا۔‘‘

2008ء میں شروع ہونے والے ٹی وی پروگراموں کے سلسلے کوک سٹوڈیو کا آج کل چھٹا سیزن چل رہا ہے
2008ء میں شروع ہونے والے ٹی وی پروگراموں کے سلسلے کوک سٹوڈیو کا آج کل چھٹا سیزن چل رہا ہےتصویر: CokeStudio

عارف لوہار کہتے ہیں کہ ’پاکستان نصرت فتح علی، عالم لوہار، غلام علی، مہدی حسن اور نور جہاں جیسے ٹیلنٹڈ فنکاروں کی سرزمین ہے، بہتر مارکیٹنگ اورعمدہ پروڈکشن ہی پاکستانی ثقافت کو دنیا بھر میں روشناس کرا سکتی ہے‘۔

پاکستانی موسیقی پر گہری نظر رکھنے والے ایک ماہر اور سچل سٹوڈیو کے روح رواں مشتاق صوفی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کوک سٹوڈیو ایک خوش آئند تجربہ ہے، جس کے پاکستان کی میوزک انڈسٹری پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں:’’اس سے ہمارے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ایک نیا پلیٹ فارم ملا ہے اور موسیقی پسند کرنے والوں کو لوکل میوزک جدید مغربی سازوں کے ساتھ سننے کا موقع ملا ہے۔‘‘

مشتاق صوفی کے مطابق ’موسیقی کی عالمی منڈی میں جگہ بنانے کے لیے مختلف سماجوں کو ایک دوسرے کے کام سے سیکھنے کی ضرورت ہے، اس سے دوریاں بھی ختم ہوتی ہیں اور لوگ قریب آتے ہیں‘۔ اُنہوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ پاکستان کے بڑے کاروباری اداروں کو ملکی ثقافت اور آرٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ اپنی توجہ صرف زیادہ سے زیادہ منافع کمانے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول وہ اپنی کمائی کا کوئی چھوٹا سا حصہ بھی آرٹ اور کلچر کے فروغ کے لیے صرف نہیں کرتے اور یہ بات ان کے ثقافتی طور پر دیوالیہ ہو جانے اور اپنی دھرتی کے ساتھ وابستگی کے فقدان کو ظاہر کرتی ہے۔