1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں نمونیہ: سالانہ بانوے ہزار بچے ہلاک

تنویر شہزاد، لاہور12 نومبر 2013

منگل کے روز دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی نمونیے کا عالمی دن منایا گیا۔ اس مرض سے بچاؤ کے لیے والدین میں آگہی پیدا کرنے کے لیے ملک کے تمام بڑے شہروں میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1AFyR
تصویر: Abdul Ghani Kakar

پاکستان دنیا کے ان پانچ ملکوں میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ بچے نمونیے کی بیماری کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال بانوے ہزار بچے اس مرض کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بیماریوں سے ہلاک ہونے والے اٹھارہ فیصد بچوں کی ہلاکت کی وجہ یہی بیماری ہے۔

پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اقبال میمن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نمونیہ ایک قابل علاج مرض ہے اور بچوں کی غذا اور ماحول کو بہتر بنا کر اور انہیں حفاظتی ٹیکے لگوا کر اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔

Klebsiella pneumoniae Bakterium
دنیا میں ہر تیس سیکنڈ کے بعد ایک بچہ اس بیماری کی وجہ سے ہلاک ہو جاتا ہےتصویر: dapd

ان کے بقول غربت، غذا کی کمی، پرہجوم طرز رہائش اور ماحولیاتی آلودگی اس مرض کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ ان کے مطابق نمونیے سے بچاؤ کی مہنگی ویکسینیشن پاکستان میں تقریبا مفت دستیاب ہے اور صرف ایک روپیہ فی بچہ خرچ کر کے ہزاروں بچوں کو نمونیے سمیت متعدد بیماریوں سے بچایا جا سکتا ہے۔

لاہور کے جنرل ہسپتال میں بچوں کی بیماریوں کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر شبیر آغا نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان کے کئی علاقوں میں لوگ ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں، وہ کھانا بھی وہاں پکاتے ہیں، بعض اوقات جانور بھی وہاں رکھتے ہیں اور وہاں سگریٹ نوشی بھی کی جاتی ہے۔ ایسا ماحول نمونیہ پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔

ان کے بقول نمونیہ کم قوت مدافعت رکھنے والے افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے پانچ سال سے کم عمر کے بچے یا پھر ساٹھ سال سے زائد عمر کے شہری اس مرض کا زیادہ شکار ہو تے ہیں۔

Zimbabwe Afrika Armut
غربت، غذا کی کمی، پرہجوم طرز رہائش اور ماحولیاتی آلودگی اس مرض کی بڑی وجوہات میں شامل ہیںتصویر: AP

ان کے مطابق دنیا میں ہر تیس سیکنڈ کے بعد ایک بچہ اس بیماری کی وجہ سے ہلاک ہو جاتا ہے اور ایسی زیادہ تر اموات ترقی پذیر ملکوں میں ہو رہی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر آغا نے بتایا کہ نمونیے کے شکار لوگوں کو بروقت طبی امداد دے کر انہیں اس مرض کی پیچیدگیوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول بچوں کو چھ ماہ تک ماں کا دودھ ضرور پلانا چاہیے اور ڈبے کے دودھ کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے میلینیم ڈیویلپمنٹ گولز کے تحت عالمی برادری سے نمونیے سے پاکستان میں ہونے والی بچوں کی ہلاکتوں میں سن دو ہزار پندرہ تک دو تہائی کمی کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن ابھی اس حوالے سے پاکستان اپنے اہداف سے دور ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سن دو ہزار بارہ سے بچوں کو مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے قومی حفاظتی پروگرام میں نمونیے سے بچاؤ کی دوا کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

ماہرین کے بقول پاکستان کے قدرے ترقی یافتہ علاقوں میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے شرح صرف ستاون فیصد ہے جبکہ اندرون سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں یہ شرح اکیس یا بائیس فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں بچوں کی بیماریوں کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر تابش حاضر نے بتایا کہ کھانسی، نزلے اور بخار کے ساتھ اگر بچے کا سانس تیز چلنا شروع ہو جائے اور وہ دودھ پینا چھوڑ دے، اس کی نیند خراب ہو جائے تو یہ علامات نمونیے کی شدت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں فورا ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ ان کے بقول نمونیے کی روک تھام صرف حکومت کا ہی فرض نہیں بلکہ والدین کو بھی اس سلسلے میں اپنی ذمے داریاں پوری کرنا چاہییں۔