1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں انسدادِ دہشتگردی کے قانون میں ترمیم منظور

عابد حسین3 جولائی 2014

انسدادِ دہشتگردی سے متعلق پہلے سے موجود قانون میں پاکستانی پارلیمنٹ نے تجویز کردہ ترامیم کی منظوری دے دی ہے۔ اب نئے قانون کے تحت دہشت گردی میں ملوث افراد کے لیے پہلے سے موجود سزا کو دوگنا کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CUn7
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

پاکستانی پارلیمنٹ میں بدھ کے روز دہشت گردی کے خاتمے کے لیے منظور ہونے والے قانون کے تحت اب کسی بھی مشتبہ شخص کو سکیورٹی فورسز کے ادارے کم از کم ساٹھ ایام کے لیے خفیہ انداز میں بغیر کسی عدالتی حکم کے حوالات میں پابند کرنے کے مجاز ہوں گے۔ پہلے یہ مدت 90 دن رکھی گئی تھی۔ اس قانون کو جب تجویز کیا گیا تھا تو پاکستان کے انسانی حقوق کے اداروں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تین ماہ سے دو ماہ تک پوچھ گچھ کے لیے کسی بھی مشتبہ شخص کو حراست میں رکھنا خاصا ظالمانہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس کی زد میں معصوم اور بےگناہ لوگ بھی آ سکتے ہیں۔

نئی ترامیم رواں برس منظور ہونے والے تحفظِ پاکستان قانون (Protection of Pakistan Bill 2014) میں کی گئی ہیں۔ پہلے اِس قانون کے تحت دہشت گردی کرنے والے مبینہ ملزم کو الزامات ثابت ہونے کی صورت میں دس برس کی قید سنائی جا سکتی تھی، جو اب بڑھا کر 20 برس کر دی گئی ہے۔ پہلے یہ قانون اِسی سال اپریل میں منظور کیا گیا تھا۔ اُس وقت بھی اِس قانون سازی پر اپوزیشن جماعتوں اور انسانی حقوق کے اداروں نے حکومت پر شدید تنقید کی تھی۔ نواز شریف حکومت کے ایک وزیر زاہد حامد کے مطابق یہ قانون شمالی وزیرستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب موجود عسکریت پسندوں کے خلاف برسرپیکار مسلح افواج کو بھی قانونی تحفظ فراہم کرے گا۔

Pakistan Flüchtlinge in Bannu 25.06.2014
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد لاکھوں افراد کو بےگھری کا سامنا ہےتصویر: A Majeed/AFP/Getty Images

اِس قانون کے تحت سکیورٹی فورسز کو خاصے وسیح اختیار حاصل ہو گئے ہیں اور اُس میں دہشت گردی کا ارتکاب کرنے یا امکاناً ایسی کارروائی کرنے کی کوشش والے کو موقع پر گولی سے مار دینا بھی شامل ہے۔ اس شِق پر بھی اپوزیشن اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور اداروں نے خاصا شور مچایا تھا۔ اب نئی ترامیم کے بعد پولیس یا سکیورٹی فورسز کے اعلیٰ افسران کے پاس گولی مارنے کا اختیار صرف آخری حد پر حاصل ہو گا۔ اِس قانون میں ترمیم ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے، جب شمالی وزیرستان میں فوج نے فضائیہ کی مدد سے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن عَضب شروع کر رکھا ہے۔

پاکستان کے آزاد انسانی حقوق کے ادارے (HRCP) کی خاتون چیرمین زہرا یوسف کا کہنا ہے کہ قانون کو منظور تو کر لیا گیا ہے لیکن اب بھی زبردستی غائب کر دیے جانے والے افراد کے حوالے سے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ زہرا یوسف کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ کے اراکین نے سابقہ قانون میں بظاہر چند تبدیلیاں ضرور کی ہیں لیکن اب بھی کمیشن سکیورٹی فورسز کو کسی بھی مشتبہ شخص کو ساٹھ دن کے لیے مقید کرنے پر شدید تحفظات رکھتا ہے۔