1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سے دو بھارتی صحافیوں کی ملک بدری

شکور رحیم15 مئی 2014

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں مقیم دو بھارتی صحافیوں کو ایک ہفتے میں ملک چھوڑنے کا حکم دراصل پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کی ایک جھلک ہے۔

https://p.dw.com/p/1C0fZ
تصویر: Abdul Sabooh

پاکستانی حکام نے تیرہ مئی کو اسلام آباد میں مقیم بھارتی اخبار دی ہندو کی نمائندہ مینا مینن اور بھارتی خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے سنیش ایلکس فلپ کو سات دن میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔

ان بھارتی صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں تحریری طور پر ملک چھوڑنے کا حکم وزارت اطلاعات کی ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ کی جانب سے تیرہ مئی کو موصول ہوا تھا۔

مینا مینن اور سنیش فلپ اگست سن دو ہزار تیرہ میں اسلام آباد آئے تھے اور انہوں نے اس سال مارچ کے مہینے میں اپنے ویزے میں توسیع کے لئے درخواست دی تھی جو وزارت داخلہ کے حکام نے مسترد کر دی ہے۔

اس بارے میں وجوہات جاننے کے لئے ڈی ڈبلیو نے پاکستانی وزارت خارجہ اور داخلہ کے علاوہ وزارت اطلاعات کے حکام سے اس بارے میں مؤقف جاننے کی کوشش کی تاہم وہ اس بارے میں آن ریکارڈ کچھ نہیں بتا رہے۔ تاہم وزرت داخلہ کے ایک اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا سب کو پتہ ہے ۔ ایسا ہوتا رہتا ہے کبھی ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ناپسندیدہ شکصیت قرار دے کر نکالا جاتا ہے اور کبھی عام لوگوں کو ویزے نہیں جاری کیے جاتے۔"

Pakistan Parlament in Islamabad
وزارت خاارجہ اور داخلہ کی جانب سے بھارتی صحافیوں کی ملک بدری کی ٹھوس وجوہات بتائی نہیں گئیتصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے پاکستان میں مشیر پرویز شوکت کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کا ایک دوسرے کے صحافیوں کے حوالے سے رویہ ایک جیسا ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ دونوں کےدرمیان تاریخی طور پر کشیدہ تعلقات ہیں۔ پرویز شوکت نے کہا کہ "یہ جو حکومتوں کی پالیسیاں ہیں آپس میں اور نہ جانے یہ کیسے تعلقات ہیں لیکن جب تک کشمیر کا تنازعہ ہے اس وقت تک یہ حالات سدھر نہیں سکتے تو میں سمجھتا ہوں کہ اخباری سطح پر یا بیانات کی حد تک یا وزرت خارجہ کی حد تک یہ تعلقات بہتر کرنے کی باتیں ہیں لیکن جو اصل مسئلہ ہے وہ جب تک حل نہیں ہوتا اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔"

ان دونوں صحافیوں کو ایک ایسے وقت میں پاکستان بدر کیا جارہا ہے جب پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف متعدد بار کہ چکے ہیں وہ پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ دوسری جانب بھارت میں انتخابات کے بعد نئی حکومت بننے والی ہے۔ جنوب ایشیائی ممالک کے صحافیوں کی تنظیم ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (سفما) کے پاکستان چیپٹر کے سیکرٹری جنرل سرمد منظور کا کہنا ہےپاکستان اور بھارت نے بہت محدود سطح پر صحافیوں کو ایک دوسرے کے ہاں کام کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کوئی بھی صحافی بھارت میں رہ کر کام نہیں کر رہا جبکہ صرف دو بھارتی صحافی اسلام آباد میں تھے جنھیں ملک چھوڑنے کا کہا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’ اس پر دونوں حکومتوں کو اور ان کی وزارت داخلہ کو بیٹھ کر دیکھنا چاہیے کہ عوامی سطح پر روابط اور خصوصا صحافیوں کے لئے جو نقل وحرکت ہے ایک دوسرے کے ملک کو سمھجنے کے لئے اور بہتر رپورٹنگ کرنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ صحافیوں کو آزادانہ طور پر ویزے جاری کیے جائیں۔‘

پاکستان اور بھارت کے ایک دوسرے کے ہاں مقیم صحافیوں اور سفارتکاروں کو اکثر خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جانب سے کڑی نگرانی کے سبب نقل وحرکت محدود ہو جانے کی شکایت رہتی ہے۔

خیال رہے کہ حال ہی میں نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے نے مبینہ طور پر دھمکی آمیز پیغامات موصول ہونے کا انکشاف کیا تھا۔اس کے بعد پاکستانی حکومت نے نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کی سکیورٹی بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا۔