1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: تین صوبائی بجٹوں کا موازنہ

18 جون 2013

تین پاکستانی صوبوں کی بجٹ تجاویز پاکستان مسلم لیگ نون کی پنجاب حکومت، پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخواہ حکومت کے درمیان تعمیری مقابلے کی فضا کی عکاسی کرتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/18rna
تصویر: AP

ملک کی تین بڑی اسمبلیوں میں پیش کیے جانے والے بجٹ جہاں ان سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کو ظاہر کر رہے ہیں، وہاں بجٹ کے اعداد و شمار سے ان جماعتوں کے مستقبل کے منصوبوں کو سمجھنے میں بھی مدد مل رہی ہے۔

مالی سال دو ہزار تیرہ اور چودہ کے لیے پیش کیے جانے والے میزانیے میں خیبر پختونخواہ کی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فی صد اضافے کا اعلان کیا ہے جبکہ سندھ حکومت نے گریڈ ایک سے پندرہ تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فی صد اور گریڈ سولہ اور اس سے اوپر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں پنجاب حکومت نے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف دس فی صد اضافے کا اعلان کیا ہے۔

خیبرپختونخواہ میں مزدور کی کم از کم اجرت دس ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، پنجاب نے بھی ایسا کرتے ہوئے اس اجرت کو مرحلہ وار پندرہ ہزار روپے تک لے جانے کی بات کی ہے۔

اس بار مختلف بجٹ تجاویز میں تعلیم کو ترجیحی اہمیت دی گئی ہے
اس بار مختلف بجٹ تجاویز میں تعلیم کو ترجیحی اہمیت دی گئی ہےتصویر: picture alliance / dpa

صوبہ سندھ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے۔ کے پی کے میں بھی عملاً صورتحال ایسی ہی ہے، صرف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر ایک فی صد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ ادھر پنجاب میں نہ صرف دو کنال سے بڑے گھروں پر لگژری ٹیکس عائد کیا گیا ہے بلکہ گھڑ دوڑ، فیشن شوز اور میوزیکل شوز کی ٹکٹوں پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔

تینوں صوبائی حکومتوں کی طرف سے ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے پیش نظر حالیہ بجٹ میں ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقوم کی بچت کا تاثر بھی دیا گیا ہے۔ گورنر ہاؤسز کے اخراجات کم کیے گئے ہیں۔ پنجاب نے سرکاری گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کر دی ہے۔ وزراء کے گھروں کی تزیئن و آرائش اور مختلف محکموں کے صوابدیدی فنڈز بھی ختم کر دیے گئے ہیں، وزیر اعلٰی آفس کے بجٹ میں تیس فی صد اور باقی محکموں میں تنخواہوں کے علاوہ اخراجات پندرہ فی صد کم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

خیبر پختونخواہ میں بھی نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی لگانے، وزیر اعلٰی اور گورنر ہاؤس کے بجٹ میں پچاس فی صد کمی کرنے کے علاوہ وزیر اعلٰی، گورنر، سپیکر اسمبلی اور سرکاری افسران سمیت اعلٰی حکومتی اور سرکاری شخصیات کے بیرون ملک علاج پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ خیبرپختونخواہ ہاؤس میں مہمانوں کے مفت قیام پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

تینوں صوبائی حکومتوں نے تعلیم کے لیے تقریباً انیس سے چھبیس فی صد رقوم مختص کی ہیں۔ اس کے علاوہ امن و امان کی بہتری، صحت کی سہولیات کی فراہمی اور بجلی کی پیداوار کے لیے بھی رقوم مختص کی گئی ہیں۔

آٹھ سو ستانوے ارب روپے کے حجم والے پنجاب کے بجٹ کی نمایاں بات اس کے انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبوں کے لیے رقوم کا مختص کیا جانا ہے۔ پنجاب حکومت لاہور میں میٹرو بس کے روٹ کو وسعت دینے اور راولپنڈی، ملتان اور فیصل آباد میں میٹرو بس سروس شروع کرنے، لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے، آشیانہ، دانش سکول، ہیلتھ انشورنس کارڈ، سولر پمپ اور لیپ ٹاپ کے منصوبے روبہ عمل لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

چھ سو سترہ ارب روپے کا سندہ کا بجٹ بھی پنجاب کی طرح خسارے کا بجٹ ہے، اس بجٹ میں ڈیڑھ لاکھ افراد کو پانچ سالوں میں ملازمتیں دینے کے لیے رقوم مختص کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور وسیلہ حق پروگرام کے لیے بھی فنڈز فراہم کیے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔

’صوبائی حکومتوں کے بجٹ سے عوامی مسائل کے حل ہونے اور غربت میں کمی آنے کے امکانات نہیں ہیں‘
’صوبائی حکومتوں کے بجٹ سے عوامی مسائل کے حل ہونے اور غربت میں کمی آنے کے امکانات نہیں ہیں‘تصویر: DW

خیبرپختونخواہ کے بجٹ میں ایک سو تریسٹھ ارب روپے فلاحی منصوبوں کے لیے اور تریسٹھ ارب روپے انتظامی امور کے لیے رکھے گئے ہیں۔ کے پی کے کے بجٹ میں بلدیاتی انتخابات، سیاحت اور پن بجلی کے منصوبوں کے لیے بھی رقوم رکھی گئی ہیں۔ بجٹ میں موبائل کورٹس کے قیام، تعلیمی ایمرجنسی لگانے، پولیس اور لینڈ ریکارڈ کے نظام کو کمپوٹرائز کرنے اور آن لائن ایف آئی آر رجسٹر کرانے کی بات کی گئی ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی تینوں بڑی صوبائی اسمبلیوں کے بجٹ اجلاس وقت پر شروع نہیں ہو سکے۔

تینوں صوبوں کے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ملک کے ممتاز ماہر اقتصادیات شاہد حسن صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ وفاقی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے پالیسی بیان کے برعکس صوبوں نے خسارے کے بجٹ بنا کر مالیاتی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کے نزدیک یہ بات صوبائی خود مختاری کے خلاف ہے کہ صوبے اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کی بجائے بجٹ بنانے کے لیے این ایف سی کے ذریعے سے ملنے والے رقوم پر انحصار کر رہے ہیں۔

ان کے بقول صوبائی حکومتوں کے بجٹ سے عوامی مسائل کے حل ہونے اور غربت میں کمی آنے کے امکانات نہیں ہیں۔ ان بجٹوں کی تیاری میں ان دعووں کو پیش نظر نہیں رکھا گیا جن کا اظہار ان سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشوروں میں کیا تھا، خاص طور پر مسلم لیگ نون نے ہر قسم کی آمدن پر ٹیکس لگانے، کالے دھن کے خاتمے اور ٹیکسوں کے منصفانہ نظام کی بات کی تھی لیکن طاقتور طبقوں کے خوف سے زرعی آمدن اور ریئل سٹیٹ سیکٹر کوٹیکس نیٹ میں مؤثر طور پر لانے سے گریز کیا گیا ہے۔ ان کے بقول صرف خیبر پختونخواہ کے بجٹ کو بہت محدود حد تک ایک اصلاحی کوشش قرار دیا جا سکتا ہے، باقی صوبوں میں روایتی اقدامات پر زیادہ انحصار کیا گیا ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: امجد علی