1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹی بی یورپ کے لیے ایک ’ٹائم بم‘

افسر اعوان20 اگست 2013

یورپ کو تپ دق کے حوالے سے ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہے، جسے ٹائم بم سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ ایک تازہ اسٹڈی کے مطابق مستقبل قریب میں یہاں ٹی بی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کئی بلین یورو کی لاگت آ سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/19SB0
تصویر: DW/M. Gehrke

ترقی یافتہ دنیا میں تپ دق یا ٹیوبر کلوسس (ٹی بی) کو ماضی کی ایک بیماری سمجھا جاتا ہے، جو اب صرف کم ترقی یافتہ ممالک میں ہی موجود ہے۔ تاہم ایک تازہ تحقیق کے مطابق یورپ میں اب بھی ہر سال اس بیماری کی روک تھام پر 500 ملین یورو سے زائد کے اخراجات آ رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ 5.3 بلین یورو کے نقصانات الگ ہیں، جو اس بیماری کے باعث پیداواری حوالے سے ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ دواؤں کے لیے مزاحمت رکھنے والے پھیپھڑوں کے بڑھتے ہوئے امراض ہیں۔

طبی معیشت دانوں کی طرف سے کی جانے والی تازہ اسٹڈی جرمنی میں کی گئی ہے۔ اس اسٹڈی کے مطابق ٹی بی کے باعث جو اقتصادی بوجھ پڑ سکتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے، جو اس بیماری کے خلاف مؤثر دواؤں اور ویکسین کی تیاری پر آ سکتا ہے۔ اس لیے ان ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ دواؤں سے وابستہ انڈسٹری کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینا چاہیے۔

ٹی بی کا علاج ایک طویل پراسیس ہے۔ مریض کو مسلسل اور بلا تعطل چھ ماہ تک مختلف اینٹی بائیوٹیکس ادویات استعمال کرنا پڑتی ہیں
ٹی بی کا علاج ایک طویل پراسیس ہے۔ مریض کو مسلسل اور بلا تعطل چھ ماہ تک مختلف اینٹی بائیوٹیکس ادویات استعمال کرنا پڑتی ہیںتصویر: picture-alliance

جرمن شہر کِیل میں قائم یونیورسٹی ہاسپٹل شلیسوِگ ہالسٹائن سے وابستہ ہیلتھ اکانومکس کے پروفیسر اور اس اسٹڈی کی سربراہی کرنے والے رونالڈ ڈِیل کے مطابق، ’’ہمیں معلوم ہے کہ نئی دواؤں اور ویکسینز کی تیاری پر کافی زیادہ لاگت آتی ہے، لیکن اگر آپ اس بیماری کے باعث ہونے والے تمام تر اخراجات کو مد نظر رکھیں تو پھر سب کچھ جائز ہے۔‘‘

ٹی بی کی ایسی اقسام سامنے آنے سے جن پر اب تک موجود طاقتور ترین ادویات بھی اثر نہیں کرتیں، یہ بیماری دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ بن کر سامنے آئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت WHO کے مطابق سال 2011ء کے دوران دنیا بھر میں تپ دق سے 8.7 ملین افراد متاثر ہوئے۔ جبکہ اس بیماری کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 1.4 ملین تھی۔ جنیوا میں قائم اس ادارے کے مطابق سال 2015ء تک قریب 20 لاکھ افراد ٹی بی کی ان اقسام سے متاثر ہو سکتے ہیں، جن پر موجودہ ادویات اثر نہیں کرتیں۔

روایتی ٹی بی کا علاج بھی ایک طویل پراسیس ہے۔ مریض کو مسلسل اور بلا تعطل چھ ماہ تک مختلف اینٹی بائیوٹیکس ادویات استعمال کرنا پڑتی ہیں، اسی باعث اکثر لوگ یہ طویل علاج مکمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور اسے درمیان میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اینٹی بائیوٹیکس کے ضرورت سے زیادہ یا غلط استعمال کے باعث ٹی بی کی ایسی اقسام سامنے آئی ہیں، جو مختلف ادویات کے خلاف مزاحمت رکھتی ہیں۔ ان اقسام کو ملٹی ڈرگ ریزسٹنس ٹی بی (MDR-TB) یا ایکسٹینسیو ڈرگ ریزسٹنس (XDR-TB) کا نام دیا جاتا ہے۔

طبی تحقیقی جریدے ’یورپین ریسپیریٹری جرنل‘ میں جمعہ 16 اگست کو شائع ہونے والی اپنی طرز کی اس پہلی تحقیق میں یورپی یونین کے 27 رکن ممالک میں 2011ء کے دوران ٹی بی کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کا منظم طریقے سے جائزہ لیا گیا۔ اخراجات کا یہ اندازہ ان ملکوں کے اشاعت شدہ طبی لٹریچر اور اداروں کی ویب سائٹس سے حاصل ہونے معلومات سے لگایا گیا۔

2011ء کے دوران دنیا بھر میں تپ دق سے 8.7 ملین افراد متاثر ہوئے
2011ء کے دوران دنیا بھر میں تپ دق سے 8.7 ملین افراد متاثر ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

ان تحقیقی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے 15 ممالک میں ٹی بی سے متاثرہ ہر مریض کے علاج پر اوسطاﹰ 10,282 یورو کا خرچ آیا۔ MDR سے متاثرہ کیس پر 57,200 یورو جبکہ XDR پر اوسطاﹰ 170,700 یورو خرچ ہوا۔

جبکہ یورپی یونین کے باقی ممالک میں روایتی ٹی بی سے متاثرہ مریض کے علاج پر اوسطاﹰ 3,427 یورو خرچ کیے گئے جبکہ ڈرگ ریزسٹنٹ اقسام پر اوسطاﹰ 24,100 یورو خرچ ہوئے۔

اس تحقیق کے مطابق یورپی یونین میں 2011ء کے دوران مجموعی طور پر ٹی بی کے علاج پر 536.89 ملین یورو خرچ کیے گئے۔ یہ اس صورت میں ہے جب یورپ میں اس وقت دواؤں کے خلاف مزاحمت رکھنے والی ٹی بی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بہت ہی کم ہے، جو قریباﹰ 70 ہزار کیسز سالانہ ہے۔ تاہم ڈِیل کے مطابق یہ صورتحال بہت تیزی سے تبدیل ہونے کی توقع ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والی ٹی بی کی اقسام کے خلاف فوری طور پر تحقیق کا عمل شروع کرتے ہوئے ان کے علاج کے لیے نئی ادویات اور ویکسینز تیار کی جائیں۔ ورنہ اس بیماری کے باعث یورپ کو مستقبل میں بہت زیادہ اخراجات اٹھانا پڑیں گے۔