1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وینس: فلمی ستاروں کی چمک دمک

عدنان اسحاق28 اگست 2014

ستائیس اگست سے وینس میں اکہتر واں بین الاقوامی فلمی میلہ شروع ہو گیا ہے، جو چھ ستمبر تک جاری رہے گا۔ دنیا کے اس سب سے پرانے میلے میں گولڈن لائن کے اعلیٰ ترین اعزاز کے لیے مقابلے کے شعبے میں بیس فلمیں شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/1D35O
افتتاحی فلم ’برڈ مین‘ کی ایک اداکارہ ایما سٹون بدھ کے روز میلے کے افتتاح کے موقع پر
افتتاحی فلم ’برڈ مین‘ کی ایک اداکارہ ایما سٹون بدھ کے روز میلے کے افتتاح کے موقع پرتصویر: Reuters

بدھ کے روز وینس فلم فیسٹیول کا افتتاح میکسیکو سے تعلق رکھنے والے ڈائریکٹر الیخاندرو گونزالیس کی فلم ’برڈ مین‘ سے ہوا۔ اس فلم میں مرکزی کردار مائیکل کیٹن ادا کر رہے ہیں۔ کیٹن ’بیٹ مین‘ اور ’بیٹل جوس‘ نامی فلموں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ’برڈ مین‘ بھی ان بیس فلموں میں شامل ہے، جو گولڈن لائن کے مقابلے میں شامل ہیں۔

اس فلم میں انہوں نے ایک ایسے ہیرو کا کردار ادا کیا ہے، جو ماضی میں ’برڈ مین‘ نامی فلم میں اپنے کردار کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا تھا اور جسے اب اسے فراموش کر دیا گیا ہے۔ اب وہ براڈ وے تھیٹر پر زیادہ متاثرکن کارکردگی دکھا کر شو بزنس کی دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام اور شان و شوکت حاصل کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ تاہم اسٹیج پرفارمنس کے دوران ’برڈ مین‘ کا کردار اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اس کے لیے اس کردار کے حصار سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہوتا اور ساتھ ہی اُس کےکانوں میں یہی صدائیں گونجتی رہتی ہیں کہ اُسے فلمی اسکرین پر واپس لوٹنا چاہیے۔ برڈ مین پر تبصرہ کرتے ہوئے مائیکل کیٹن نے کہا، ’’مجھے برڈ مین کا خیال بہت پسند آیا۔ ہم سب کی زندگی میں ایک برڈ مین ہوتا ہے، جسے ہم اپنی منفی انا کہہ سکتے ہیں۔ یا تو آپ اُس کے ساتھ سمجھوتہ کر لیں یا پھر اُسے نظر انداز کرتے ہوئے اپنی زندگی کی گاڑی کی پچھلی نشست پر بٹھا دیں۔ لیکن یہ گاڑی آپ کو ہی چلانا ہو گی۔‘‘

’برڈ مین‘ کی ٹیم اپنے فلم ڈائریکٹر کے ساتھ
’برڈ مین‘ کی ٹیم اپنے فلم ڈائریکٹر کے ساتھتصویر: picture-alliance/dpa

وینس فیسٹیول میں مقابلے کے لیے پیش کی جانے والی فلموں میں ترک نژاد جرمن ہدایتکار فاتح آکن کی کاوش ’دی کٹ‘ بھی شامل ہے۔ اس فلم میں انہوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران آرمینیائی شہریوں کے قتل عام کے متنازعہ موضوع کا انتخاب کیا ہے اور اس میں ایک ایسے والد کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو اپنی بیٹی کو تلاش کر رہا ہے۔

اس سال مقابلے میں ایک دستاویزی فلم بھی شامل ہے۔ یوشا اوپنہائمر نے ’’The Look of Silence‘‘ نامی یہ فلم انڈونیشی تاریخ کے سیاہ باب پر بنائی ہے۔ اس سے قبل اُن کی فلم ’’ The Act of Killing ‘‘ کو آسکر ایوارڈ دیا جا چکا ہے۔

اس فیسٹیول کے دونوں سربراہ پاؤلو باراتا اور البیرتو باربیرا کے مطابق فلمی میلے کا پروگرام انتہائی دلچسپ انداز میں ترتیب دیا گیا ہے۔ ان کے بقول میلے کے دوران مجموعی طور پر پچپن فلمیں دکھائی جائیں گی۔ اس کے علاوہ وینس کلاسک کے شعبے میں فلمی دنیا کی21 نایاب تخلیقات کو تکنیکی طور پر جدید اور بہتر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

وینس میلے کے موقع پر سجائے گئے پوسٹرز کا ایک منظر
وینس میلے کے موقع پر سجائے گئے پوسٹرز کا ایک منظرتصویر: Getty Images

تاریخی شہر وینس میں گیارہ دن تک فلمیں اور فلمی ستارے ہی دکھائی دیں گے اور آخر میں ایک ہی ہدایتکار گولڈن لائن کا حقدار ٹھہرایا جائے گا۔ گولڈن لائن کے حقدار فاتح آکن ہوتے ہیں یا الیخاندرو گونزالیس، اس کا فیصلہ جیوری کرے گی، جس کی قیادت فرانس کے مشہور فلم کمپوزر الیکساندرے دیسپلا کریں گے، جو ’دی کنگز اسپیج‘ اور ’ہیری پوٹر اینڈ دی ڈیتھلی ہالوز‘ جیسی فلموں کی موسیقی دے چکے ہیں۔ جیوری میں جرمن ہدایتکار فلپ گروئننگ بھی شامل ہیں، جو 2013ء میں وینس فلم فیسٹیول میں ایک خصوصی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔