1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وہ ملاقات، جس کا خود وزیر اعظم مودی کو بھی انتظار تھا

جاوید اختر، نئی دہلی25 ستمبر 2014

بھارتی وزیر اعظم آج امریکا کے پانچ روزہ دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ تقریباﹰ چارماہ قبل اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کا یہ سب سے بڑا اور اہم غیر ملکی دورہ ہے۔ وہ مجموعی طورپر پینتیس پروگراموں میں شرکت کریں گے۔

https://p.dw.com/p/1DKyW
تصویر: Reuters/Ministry of Information and Communication

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے دورہ ء امریکا میں کافی مصروف رہیں گے۔ وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے علاوہ میڈیسن اسکوائر میں انڈین ،امریکن کمیونٹی سے بھی خطاب کریں گے۔ وہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن، ان کی اہلیہ، سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن، نائب امریکی صدر اور کانگریس کے اراکین سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ اس کے علاوہ ان کی ملاقاتیں گوگل اور پیپسی کو جیسی بڑی کمپنیوں کے گیارہ سی ای اوز سے بھی طے ہیں۔ تاہم سب سے اہم ملاقات، جس کا سب کو اور خود وزیر اعظم مودی کو بھی شدت سے انتظار ہے، وہ ہے صدر باراک اوباما کے ساتھ ان کی میٹنگ۔ دونوں رہنماؤں کی پہلی ملاقات 29 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں نجی ڈنر پر ہوگی جب کہ 30 ستمبر کو دونوں کے درمیان باقاعدہ دوطرفہ ملاقات طے ہے۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب کوئی بھارتی وزیر اعظم امریکا کے دورے کے دوران اتنے زیادہ سرکاری اور نجی پروگراموں میں شرکت کرے گا۔

بین الاقوامی اور اسٹریٹیجک امور کے ماہرین وزیر اعظم نریندر مودی کے اس دورے کو دونوں ملکوں کے تعلقات کو اگلی سطح پر لے جانے کے موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کے مشہور تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں سینئر فیلو اوما پرشوتم نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’یہ دورہ دونوں ملکوں کے لئے اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ دونوں رہنما پہلی مرتبہ ایک دوسرے سے مل رہے ہیں ، اس سے دونوں ایک دوسرے کو قریب سے سمجھ سکیں گے، جس سے بھارت امریکا تعلقات کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔‘‘

اوما پرشوتم کا کہنا ہے کہ چونکہ گزشتہ دو برسوں کے دوران کئی معاملات کے سبب دونوں ملکوں کے تعلقات میں تھوڑی تلخی پائی جاتی ہے اس لئے یہ ملاقات دوری کو کم کرنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ اوما پرشوتم کا خیال ہے کہ اس دورے سے کسی بڑی کامیابی کی توقع مناسب نہیں ہے تاہم دونوں ممالک کئی چھوٹے معاہدے کر سکتے ہیں، کچھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہو سکتے ہیں، جن میں اعلیٰ تعلیم اور کلین انرجی شامل ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ اوباما سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کی بھارتی خواہش کی تکمیل میں کتنے معاون ہوسکتے ہیں، کے جواب میں اوما پرشوتم کا کہنا تھا کہ امریکا اس ضمن میں پہلے ہی وعدہ کرچکا ہے اور اسے اب وعدے سے آگے بڑھ کر عملی قدم اٹھانا چاہیے کیوں کہ وہی سلامتی کونسل کی اصلاحات میں سب سے اہم رول ادا کرسکتا ہے۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم مودی کی صدر اوباما کے ساتھ یہ ملاقات ان کی ایک ماہ کے اندر تیسرے عالمی رہنما سے ملاقات ہوگی۔ اس سے قبل وہ جاپانی وزیر اعظم شینزو ابے اور چینی وزیر اعظم شی جن پنگ سے مل چکے ہیں۔ تاہم تجزیہ نگار صدر اوباما سے ان کی اس ملاقات کو وزیر اعظم مودی کی ذاتی فتح قرار دے رہے ہیں کیوں کہ گجرات میں 2002ء میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بعدسے، جب وہ ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے، امریکا نے انہیں متعدد بار ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔