1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ورلڈ یوتھ ڈے اور پاکستانی نوجوان

عنبرین فاطمہ، کراچی12 اگست 2014

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج نوجوانوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ رواں برس یہ دن منانے کا مقصد، نوجوانوں کی ذہنی صحت اور اس سے منسلک مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے حل کے لیے فوری کوششوں کی ضرورت پر زور دینا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Csue
تصویر: Pakistan Youth Alliance

چھبیس سالہ فرحان کا تعلق کراچی کے ایک نسبتاً متوسط علاقے سے ہے۔ ایم بی اے کی ڈگری رکھنے والے اس نوجوان کو اس کے والدین نے گھر میں تنگدستی کے باوجود اچھے مستقبل کی امید پر اپنا پیٹ کاٹ کر شہر کی ایک مہنگی اور معروف یونیورسٹی میں پڑھایا۔ امتیازی نمبروں سے پاس ہونے کے باوجود گزشتہ دو برسوں سے فرحان ہاتھ میں ڈگری لیے ہزاروں دفتروں کی خاک چھان چکا ہے لیکن ابھی تک بے روزگار ہے: ’’میں دو سال سے اب تک ناجانے کتنے دفتروں کے چکر کاٹ چکا ہوں۔ ہر جگہ سے منفی جواب مل جاتا ہے۔ سفارش میرے پاس کوئی ہے نہیں۔ دن بدن ذہنی اذیت کا شکار ہو رہا ہوں۔ سمجھ نہیں آتا کہاں جاؤں۔ جی چاہتا ہے اس ڈگری کو آگ لگا دوں۔‘‘

صرف بے روزگاری ہی نہیں بلکہ معاشی مسائل ، ملک میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال، وسائل اور توانائی کی کمی سمیت کئی ایسے مسائل ہیں جنہوں نے پاکستانی قوم اور خاص طور پر نوجوانوں کو مختلف ذہنی امراض میں مبتلا کر دیا ہے۔

کراچی کے معروف ماہر نفسیات اور کراچی سائکیاٹرک ہاسپٹل کے سربراہ ڈاکٹر مبین اختر کے مطابق ملک میں کتنے نوجوان مختلف وجوہات کے باعث ذہنی امراض میں مبتلا ہیں، اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں کیونکہ اس حوالے سے حکومتی سطح پر نہ تو کوئی ایسے اعداد وشمار دستیاب ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے نہ کوئی نظام موجود ہے۔

پاکستانی نوجوانوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مبین اختر کا مزید کہنا تھا: ’’ مینٹل ہیلتھ سے پہلے تو فزیکل ہیلتھ کا مسئلہ ہے۔ جس کی بڑی وجہ نامناسب خوراک ہے۔ دوسرا یہ کہ ایجوکیشن نہیں ہے۔ 50 فیصد تک تو اسکول ہی نہیں جاتے۔ پھر جو اسکول جاتے ہیں تو انہیں زبان کے حوالے سے مسائل درپیش ہیں بچے اردو اور انگریزی سے کنفیوز ہیں۔ نہ ہی سرکاری اسکولوں میں ضروری سہولتیں میسر ہیں۔ پھر طبقاتی تعلیمی نظام ہے تو یہ ساری چیزیں بچوں اور نوجوانوں میں مینٹل اور سائیکالوجیکل مسائل کا سبب بنتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر مبین اختر کے مطابق پاکستان میں عام طور پر جو ذہنی امراض میں مبتلا طبقہ ہے وہ نوجوان ہی ہیں: ’’ذہنی بیماریاں عام طور پر ہوتی ہی نوجوانوں میں ہیں۔ 20 سے 40 سال ایسی عمر ہے جس میں سب سے زیادہ ذہنی مسائل جنم لیتے ہیں۔ مثلاﹰ اینزائیٹی، ڈپریشن اور نیوروسز وغیرہ۔ تو یہاں پر نوجوانوں میں ہر طرح کی ذہنی بیماریاں موجود ہیں۔‘‘

International Digital Youth Summit Pakistan
نوجوانوں کے ذہنی مسائل کے شکار ہونے کا خدشہ زیادہ رہتا ہے، ماہرینِ نفسیاتتصویر: DW/F. Khan

ماہر نفسیات ڈاکٹر مبین اختر کے مطابق افسوسناک بات یہ ہے کہ نوجوانوں کے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کی ایک بڑی وجہ ہمارے سماجی رویے بھی ہیں جن میں والدین سے لے کر اساتذہ اور بطور معاشرہ ہم اپنے نوجوانوں میں اعتماد کے بجائے عدم اعتماد اور خوف پیدا کرتے ہیں جو آگے چل کر نفسیاتی مسائل کی وجہ بنتا ہے۔

پندرہ برس قبل اقوام متحدہ نے 12 اگست کے دن کو دنیا بھر کے نوجوانوں کے نام کیا تھا۔ اس کا مقصد نوجوانوں کے مسائل کو اجاگر کرنا اوران کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا تھا جس کے بعد ہر سال دنیا کے تمام ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس دن کے حوالے سے عوامی آگاہی کے لیے مختلف تقریبات اور پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ تاہم پندرہ سالوں سے اس دن کو منانے کے باوجود نوجوانوں کا شکوہ ہے کہ ملک کے باصلاحیت نوجوانوں کو وہ پذیرائی اور وسائل میسر نہیں آرہے جو ان کا حق ہیں۔ اکثر نوجوانوں کے مطابق وہ اس دن کو کسی عام دن ہی کی طرح گزارتے ہیں۔

28 سالہ شاہد علی نے بی کام کیا ہوا وہ ایک دفتر میں ملازمت کرتے ہیں تاہم کم تنخواہ کے باعث مالی پریشانیوں کا شکار ہیں: ’’کیا فائدہ اس دن کو منانے کا؟ اس دن کو منا کر میری مشکلات تو کم نہیں ہوں گی۔‘‘

تاہم بعض نوجوان آج بھی بہتر مستقبل کے لیے پُر عزم ہیں۔ بی ایس سی کی طالبہ مریم گُل کہتی ہیں: ’’میں ملک کے حالات سے تو کسی حد تک نا امید ہوں لیکن اپنے اور اپنے ملک کے مستقبل کے حوالےسے پُر عزم ہوں۔‘‘

پاکستان میں با صلاحیت نوجوانوں کی کمی نہیں ہے۔ شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑی ہو یا فارمولا ریسنگ کار تیار کرنے کا مقابلہ، ایک نوجوان خاتون کوہ پیما کی طرف سے سات بر اعظموں کی سات بلند چوٹیاں سر کرنے کا کارنامہ ہو یا پھر عالمی باڈی بلڈنگ مقابلوں میں کامیابیاں، پاکستانی نوجوان کسی میدان میں پیچھے نہیں۔ تاہم ماہرین نفسیات کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج میں نوجوانوں کے لیے صحت مند ذہن اور رویوں کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اگر کسی بھی وجہ سے انہیں ذہنی مسائل کا سامنا ہے تو اسے نظر انداز نہ کیا جائے کیونکہ یہ نوجوان ہی ملک کا مستقبل ہیں۔