1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپالی شہری خلیجی ملکوں میں بھی مشکلات کے شکار

بینش جاوید4 اکتوبر 2013

قطر میں دوران کام اپنے والد کی ہلاکت کے باوجود پچیس سالہ راجو پراساد اسی ملک کام کرنے کے لیے جانا چاہتا ہے۔ کھٹمنڈو کے مضافاتی گاؤں تیلکوٹ میں اس کا گھر ابھی بھی زیر تعمیر ہے کیونکہ اب باہر کی کمائی آنا بند ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/19tp8
تصویر: picture-alliance/dpa

اپنے موجودہ حلات سے مایوس پراساد کا کہنا ہے، ’’میں اور کر بھی کیا سکتا ہوں‘‘۔ اگر مجھے قطر میں کام ملا تو میں ضرور وہاں جاؤں گا راجو پراساد لمیشاہنے کا بھائی اور اس کا باپ قطر میں ایک کمپنی میں کام کرتے تھے۔ پراساد کا کہنا ہے کہ اس کے والد شدید گرمی اور دھوئیں میں سولہ، سولہ گھنٹے تک کام کرتے رہتے تھے۔ دیگر قطری کمپنیوں کی طرح اس کمپنی نے بھی پراساد کے بھائی اور والد کے پاسپورٹ اپنی تحویل میں رکھے ہوئے تھے اور ان سے ملازمت کا دو سالہ معاہدہ کیا ہوا تھا۔ پراساد کا کہنا ہے کہ اس کے والد اور بھائی کے افسران انہیں ’کتا اور بندر‘ جیسے الفاظ سے پکارتے تھے لیکن وہ یہ سب کچھ اس لیے برداشت کرتے تھے کیونکہ وہ ہر ماہ 250 سے 300 ڈالر تک رقم کما لیتے تھے۔ لیکن گزشتہ برس اگست میں پراساد کے والد کام کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگئے۔

قطر میں نیپال سے آئے مزدورں کے ساتھ غیر انسانی رویوں کی خبر چند روز قبل برطانوی جریدےگارڈین نے شائع کی تھی۔ اس اخبار نے یہ انکشاف کیا تھا کہ قطر میں سن 2022ء میں منعقد ہونے والے عالمی فٹ بال کپ مقابلوں کی تیاریوں کے سلسلے میں جاری تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے والے نیپالی مزدروں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔

Katar WM-Gastgeber FIFA 2022 Stadion
تصویر: picture alliance/Frank Rumpenhorst

اخبار میں کہا گیا تھا کہ قطر میں فٹبال ورلڈ کپ کے اسٹیڈیم کی تعمیر کے لیے آئے نیپالی مزدور شدید مشکل حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اس سال جون سے لے کر اگست تک کئی درجن مزدور ہلاک ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب قطر اور نیپال کی حکومتیں اس عرصے کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد پر اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کے مطابق گزشتہ برس قطر میں276 نیپالی شہری ہلاک ہوئے ان میں سے صرف 20 فیصد کام کے دوران ہلاک ہوئے۔

نیپال کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس ملک کے شہریوں کو دس سال سے زیادہ خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ سات برسوں میں نیپال کے سیاستدان ملک کا آئین بنانے میں بھی ناکام رہے ہیں، جس کے باعث ملک میں کاروبار کے لیے غیر یقینی ماحول ہے اور معاشی ترقی کے مواقع بھی میسر نہیں ہیں۔ پانچ برس بعد اگلے ماہ نومبر میں نیپال میں عام انتخابات کرائے جا رہے ہیں لیکن نیپال کے شہریوں کو ملکی حالات بدلنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

راجو پراساد لمیشاہنے کی رائے میں، ’’ملک کے سیاسی ماحول میں تبدیلی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حکومت اور سیاستدان نوکریاں حاصل کرنے کے مواقع پیدا نہیں کر پائیں گے۔‘‘ اندازوں کے مطابق ان مشکل حالات کے باعث رواں برس نیپال سے کم ازکم چار لاکھ افراد روزگار کی تلاش میں ملائشیا اور خلیجی ریاستوں میں جائیں گے۔

دارالحکومت کھٹمنڈو میں ’فارن ایمپلائمنٹ پروموش بورڈ‘ بیرون ملک ہلاک ہونے والے شہریوں کے اہل خانہ کو حکومت کی جانب سے معاوضہ ادا کرنے والا ادارہ ہے۔ گزشتہ برس جولائی سے اس سال جولائی تک فارن ایمپلائمنٹ پروموش بورڈ نے ایسے 726 متاثرہ خاندانوں کو فی کس 1500 ڈالر ادا کیے ہیں۔ اس ادارے میں کام کرنے والے ایک ملازم یمال ادھیکاری کا کہنا ہے، ’’ نیپالی شہری بہت بڑی تعداد میں بیرون ملک قیام پذیر ہیں لہذا وہاں اس قدر ہلاکتیں ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن پریشان کن امر یہ ہے کہ اب زیادہ کم عمر افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔‘‘

یمال ادھیکاری کی رائے میں بہت سے لوگوں کی ہلاکت بیرون ملک نوکری حاصل کرنے کے عوض ایجنسیوں کی دی جانے والی بڑی رقم کی ادائیگی کی فکر میں، دیسی شراب پینے یا پھر گرمی کی شدت کے باعث ہوتی ہے۔

بال بہادر تمنگ نیپالی شہریوں کو بیرون ملک بھجوانے والی سات سو کمپنیوں کی فیڈیریشن کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیرون ملک نیپالی شہریوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے پاسپورٹ ان سے لے لیے جاتے ہیں اور تنخواہیں بھی روک دی جاتی ہیں۔

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق نیپال کی دس فیصد آبادی ملک سے باہر قیام پذیر ہے لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سے دگنی تعداد ملک سے باہر ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں بیرون ملک نیپالی شہریوں نے نیپال میں 4.34 ارب ڈالر بھجوائے ہیں، جو دو برس پہلے بھجوائی جانے والی رقم سے دو گنا زیادہ ہیں۔ یہ رقم نیپال کی سالانہ قومی پیداوار کا بیس فیصد ہے۔

چند روز پہلے نیپال حکومت نے قطر میں تعینات اپنی خاتون سفیر مایا کماری شرما کو بھی واپس بلا لیا تھا۔ کماری شرما نے قطر میں مزدوروں کے حقوق کی پامالیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس ملک کو مزدوروں کے لیے ایک ’کھلی جیل‘ قرار دیا تھا۔

ناقدین کی رائے میں نیپال کی حکومت کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ اسے ملک میں آنے والی ترسیلات زر کی اپنے شہریوں کے حقوق سے زیادہ فکر ہے۔