1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب گنٹر گراس انتقال کر گئے

عاطف توقیر13 اپریل 2015

نوبل انعام یافتہ جرمن شاعر و ادیب گُنٹر گراس 87 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ گنٹر گراس نے نازیوں کی بربریت کے عہد کے خاتمے کے بعد کی نسل کو آواز دی، تاہم بعد میں خود بھی متنازعہ ہوگئے۔

https://p.dw.com/p/1F6x4
تصویر: picture alliance/dpa//Agencja Gazeta/D. Sadowski

پیر کے روز گُنٹر گراس کے اشاعتی ادارے شٹائڈل پبلشنگ ہاؤس کے ترجمان ماتھیاس ویگنر نے تصدیق کی کہ گراس شمالی جرمن شہر لیوبیک کے ایک ہسپتال میں پیر کی صبح انتقال کر گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد گُنٹر گراس نے تباہ حال جرمنی میں ثقافت کی بحالی اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے آواز اٹھائی اور ایک پوری نسل ان کی ہم نوا ہو گئی، تاہم بعد میں دوسری عالمی جنگ میں ان کے اپنے کردار کی وجہ سے ان کی شخصیت کئی طرح کے تنازعات اور تنقید کی زد میں بھی رہی۔

سن 2006ء میں اس حوالے سے ایک بڑا تنازعہ اس وقت سامنے آیا، جب اپنی کتاب ’اسکننگ دی اونین‘ میں انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ وہ اپنی نوعمر میں آڈولف ہٹلر کی فوج کے انتہائی طاقتور حصے ’وافن ایس ایس‘ میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔

Deutschland Günter Grass Schriftsteller s/w
گنٹر گراس کی ایک یادگار تصویر، نومبر 1964ءتصویر: picture-alliance/dpa

سن 2012ء میں بھی انہیں جرمنی میں اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جب انہوں نے ’وس گزاکٹ ورڈن مُس‘ یا ’یہ ہر صورت میں کہا جانا چاہیے‘ جیسی اسرائیل مخالف نظم تحریر کی۔ اس نظم میں انہوں نے اسرائیل کے حوالے سے مغربی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسرائیل کو عالمی سلامتی کے لیے ایک خطرہ قرار دیا۔

گنٹر گراس کو ادبی دنیا میں پہلی مرتبہ اس وقت جانا مانا گیا، جب سن 1959ء میں ان کی کتاب ’دی ٹِن ڈرم‘ شائع ہوئی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کی تصنیفات ’کیٹ اینڈ ماؤس‘ اور ’ڈاگ ایئرز‘ شائع ہوئیں۔ ان تصنیفات میں نازی ازم کے لیے جرمنوں کا ردعمل، آڈولف ہٹلر کی شکست، جنگ کی تباہ کاریوں اور جرمنوں میں پائے جانے والے احساسِ جرم جیسے موضوعات کو حقیقیت اور مجاز کے امتزاج سے نیا رنگ دیا۔

’دی ٹِن ڈرم‘ میں کہانی پولستانی شہر ڈانسِگ کے اس بچے کی ہے، جس نے نازیوں کی سیاسی طاقت میں اضافے کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بڑا نہیں ہو گا اور اس کا کھلونا ڈرم اس کے اس فیصلے کی ایک نشانی بن گیا۔

گنٹر گراس خود بھی 16 اکتوبر 1927 کو ڈانسِگ میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی کئی کہانیوں میں اسی شہر سے کردار اٹھائے۔ ٹریلوگی نامی کتاب میں انہوں نے اپنے ذاتی تجربے، نازی دور میں فوجی خدمات اور سن 1946 تک جنگی قیدی کے طور پر امریکیوں کی حراست میں رہنے کا تجربہ بھی بیان کیا۔

سن 1999ء میں انہیں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ گراس اپنے ہم عصر شعراء اور ادیبوں میں نہایت احترام سے دیکھے جاتے ہیں، تاہم سیاسی معاملات میں کھل کر بات کرنے کی وجہ سے ان کی شخصیت متنازعہ بھی رہی۔ سن 1989ء میں دیوار برلن کے انہدام اور جرمنی کے اتحاد کو بھی انہوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ وہ کبھی اس خوف سے باہر نہیں آئے کہ جرمنی دوسری عالمی جنگ جیسی پھر کسی خوف ناک جہت میں نکل سکتا ہے۔

گراس کو کئی اعزازی اسناد سے نوازا گیا، جن میں سن 1976ء میں ہارورڈ یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی شامل ہے۔