1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نانگا پربت سر کیے جانے کے ساٹھ برس

3 جولائی 2013

آسٹریا کے کوہ پیما ہیرمن بُوہل نے ٹھیک ساٹھ برس پہلے 1953ء میں آج ہی کے روز یعنی تین جولائی کو پاکستان میں واقع دنیا کی 9 ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کو سر کیا تھا۔ یہ چوٹی حال ہی میں منفی شہ سرخیوں کا موضوع بنی ہے۔

https://p.dw.com/p/191Zg
تصویر: dpa

جنوبی تیرول سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما رائن ہولڈ میسنر نے نانگا پربت کو سب سے پہلے سر کرنے والے ہیرمن بُوہل کے بارے میں کہا تھا، ’میرے خیال میں ہیرمن بُوہل اپنے دور میں بلاشبہ دنیا کے بہترین کوہ پیما تھے‘، جو چٹانوں والے پہاڑوں میں بھی اُتنے ہی طاقتور تھے، جتنے کہ برفیلی چوٹیوں پر۔

تاہم وہ ایک ایسے کوہ پیما تھے، جو کسی کی کم ہی سنتے تھے۔ 1953ء میں جولائی کے مہینے میں نانگا پربت کے بیس کیمپ میں موجود کوہ پیماؤں کی ٹیم کے جرمن انچارج کارل ماریا ہیرلیکوفر نے بُوہل کو متعدد مرتبہ وائر لیس پر یہ پیغام دیا کہ وہ چوٹی کو سر کرنے کی کوشش ترک کرتے ہوئے لوٹ آئیں تاہم بُوہل نے کسی بھی قسم کی ہدایات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔

آسٹرین کوہ پیما ہیرمن بُوہل
آسٹرین کوہ پیما ہیرمن بُوہلتصویر: picture-alliance/dpa

آسٹریا کے اس کوہ پیما کی عمر اُس وقت اٹھائیس برس تھی اور اُنہیں لگ رہا تھا کہ اُن کے پاس پہلے کوہ پیما کے طور پر پاکستان کی اِس 8125 میٹر بلند چوٹی کو سر کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ جب اُن کے ساتھی کوہ پیما اوٹو کیمپٹنر طے شُدہ وقت پر مقررہ جگہ پر نہ پہنچے تو اُنہوں نے اکیلے ہی آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ تب وہ بیس کیمپ سے 1225 میٹر کی بلندی پر تھے اور بلند ترین کیمپ اور چوٹی کے درمیان ابھی مزید چھ کلومیٹر کا فاصلہ رہتا تھا۔ تین جولائی 1953ء کو بُوہل اکیلے ہی چوٹی پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

میسنر: اس مہم میں زندہ بچ جانا مشکل تھا

بعد ازاں اس کوہ پیما نے لکھا:’’یہ لمحہ کتنا اہم ہے، ابھی مجھے اس کا زیادہ اندازہ نہیں ہے۔ مجھے فتح کی سرشاری کا احساس بھی نہیں ہو رہا۔ مجھے بس خوشی ہے کہ میں یہاں اوپر آ چکا ہوں اور ساری مشکلات سردست اختتام پذیر ہو چکی ہیں۔‘‘ تاہم یہ بُوہل کی غلط فہمی تھی۔ اصل مشکلات تو ابھی آنے والی تھیں۔ اپنا سفر شروع کرنے کے اکتالیس گھنٹے بعد وہ اپنی آخری قوت مجتمع کرتے ہوئے واپس سب سے بلند کیمپ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ 1995ء میں جاپانی کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم کو یہی فاصلہ طے کرنے میں 39 گھنٹے لگ گئے، حالانکہ اُن کے پاس جدید ترین آلات اور ساز و سامان بھی تھا اور راستے کی ساری تفصیلات بھی۔ رائن ہولڈ میسنر کہتے ہیں:’’ایسے میں یہ بات واضح ہے کہ بُوہل اپنے وقت میں موجودہ عہد سے کم از کم پچاس سال آگے تھے۔ بُوہل نے جو کارنامہ انجام دیا، ایک عام کوہ پیما ویسا کرتے ہوئے زندہ نہ بچتا۔‘‘

ہیرمن بُوہل نے زیادہ عمر نہیں پائی۔ 1957ء میں پاکستان ہی میں سات ہزار میٹر سے زیادہ بلند چوگولیزا چوٹی سر کرنے کی کوشش کے دوران وہ گر کر ہلاک ہو گئے۔ اس سے چند ہی روز پہلے اُنہوں نے اپنے تین ہم وطنوں کے ساتھ مل کر آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند چوٹی بروڈ پِیک کو پہلی مرتبہ سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

نانگا پربت کا ایک منظر
نانگا پربت کا ایک منظرتصویر: Senator Film Verleih

نانگا پربت: نازیوں کے لیے ’تقدیر کا پہاڑ‘

ہمالیہ کے مغربی جانب واقع ’نانگا پربت‘ کو سر کرنے کی سب سے پہلی کوشش 1895ء میں کی گئی تھی۔ 1930ء کے عشرے میں نازیوں نے اس پہاڑ کو ’تقدیر کا پہاڑ‘ قرار دے دیا تھا۔ پراپیگنڈا مقاصد کے تحت وہ چاہتے تھے کہ اسے سب سے پہلے کوئی جرمن کوہ پیما سر کرے۔ سات برسوں کے اندر اندر پانچ مہمات ناکام رہیں جبکہ دو کا انجام المناک ہوا۔ 1934ء میں تین جرمن کوہ پیما اور اُن کے ساتھ جانے والے چھ شیرپا ایک برفانی طوفان کے دوران موت کا شکار ہو گئے جبکہ 1937ء میں ایک مہم کے سولہ ارکان برفانی تودے کے نیچے دب کر ہلاک ہو گئے۔

نانگا پربت اور رائن ہولڈ میسنر

کوہ پیماؤں کی نظر میں نانگا پربت آج تک منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ گزشتہ چھ عشروں کے دوران اس چوٹی کو 300 سے زیادہ مرتبہ کامیابی کے ساتھ سر کیا جا چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو 6000 مرتبہ سر کیا جا چکا ہے۔ نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش کے دوران تقریباً 70 کوہ پیماؤں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔

عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما رائن ہوللڈ میسنر
عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما رائن ہوللڈ میسنر

اس چوٹی کو سر کرنے کے لیے 1970ء کی وہ مہم سب سے زیادہ شہ سرخیوں کا موضوع بنی ہے، جس میں رائن ہولڈ میسنر اپنے بھائی گنتھر کے ہمراہ پہلی مرتبہ 4500 میٹر بلند روپل وال کی جانب سے چوٹی پر پہنچے تھے اور پہاڑ کے دوسری جانب سے نیچے اترے تھے۔ تب گنتھر ایک برفانی تودے کے نیچے دب کر ہلاک ہو گئے۔ کوہ پیماؤں میں آج تک اس موضوع پر بحث جاری ہے کہ درحقیقت اُس مہم کے دوران کیا واقعات پیش آئے تھے۔ میسنر نے 1978ء میں ایک بار پھر نانگا پربت کو اس طرح سے سر کیا تھا کہ وہ آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند کسی چوٹی کو بغیر کسی کی معاونت کے اکیلے ہی سر کرنے والے پہلے کوہ پیما بن گئے۔

قتل کی واردات کے بعد بے یقینی کی کیفیت

آنے والے برسوں میں نانگا پربت کے آس پاس قدرے خاموشی رہے گی۔ 22 اور 23 جون کی درمیانی شب ہونے والی واردات میں گیارہ کوہ پیماؤں کے قتل کے بعد بہت سے کوہ پیما اور ٹریکنگ سیاح اس چوٹی کا رُخ کرنے سے کترائیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ اس واردات کی ذمے داری قبول کرنے والے گروپ نے مزید حملے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ خاص طور پر امریکا اور یورپ سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی سیاحوں کو اُس وقت تک نشانہ بنایا جاتا رہے گا، جب تک کہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے بند نہیں ہو جاتے۔

رپورٹ: اسٹیفن نیسٹلر / اے اے

ادارت: کشور مصطفیٰ