1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں اوباما کا مصروف دن

امجد علی13 نومبر 2014

میانمار کے ایک سہ روزہ دورے پر گئے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے جمعرات کو صدر تھین سین کے ساتھ ملاقات سے پہلے میانمار کے اراکینِ اسمبلی کے ایک گروپ کے ساتھ بات چیت میں جاری جمہوری عمل کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا۔

https://p.dw.com/p/1DmSu
جمعرات تیرہ نومبر 2014ء کو نیپیداو میں باراک اوباما اور میانمار کی اپوزیشن رہنما آنگ سان سُوچی کی ملاقات کا ایک منظر
جمعرات تیرہ نومبر 2014ء کو نیپیداو میں باراک اوباما اور میانمار کی اپوزیشن رہنما آنگ سان سُوچی کی ملاقات کا ایک منظرتصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Martinez Monsivais

اوباما مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے سربراہ اجلاس میں شرکت اور میانمار کے سہ روزہ دورے کے لیے بدھ کو نیپیداو پہنچے تھے۔ اُنہوں نے ملکی پارلیمان کے اراکین کے جس گروپ کے ساتھ ملاقات کی، اُس میں اپوزیشن رہنما آنگ سان سُوچی بھی شامل تھیں۔ اوباما ہی کی طرح سُوچی بھی امن کا نوبل انعام حاصل کر چکی ہیں، دونوں کی ملاقات 2012ء میں اوباما کے پہلے دورہٴ میانمار کے موقع پر بھی ہوئی تھی اور دونوں جمعے کو ینگون میں سُوچی کی رہائش گاہ پر ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کرنے والے ہیں۔

میانمار کی اپوزیشن رہنما آنگ سان سُوچی
میانمار کی اپوزیشن رہنما آنگ سان سُوچیتصویر: Getty Images

سُوچی نے بھی اوباما کے دورے سے پہلے میانمار میں جمہوریت کےحوالے سے حد سے زیادہ مثبت توقعات رکھنے سے خبردار کیا تھا۔ میانمار میں آئندہ برس عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ سُوچی کی جماعت انتخابی میدان میں تو کامیاب ہے لیکن اصل مسئلہ ملکی آئین کا ہے، جس کی رُو سے سُوچی منصبِ صدارت کی اہل نہیں ہیں اور جس میں ترمیم کے لیے سُوچی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جمعرات سے ملکی پارلیمان میں اِس آئینی ترمیم کے موضوع پر بحث کا بھی آغاز ہو گیا ہے تاہم پارلیمان میں پچیس فیصد نشستیں فوج کے پاس ہیں اور اس اعتبار سے اُسے آئین میں ترمیم کے حوالے سے ویٹو کا حق حاصل ہے۔

آج دیر گئے باراک اوباما میانمار کے صدر تھین سین کے ساتھ ملاقات کرنے والے ہیں، جو سابق فوجی جنرل ہیں اور اب ملک میں جمہوری اصلاحات متعارف کروا رہے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس ملاقات میں اوباما انسانی حقوق کا نازک موضوع بھی زیر بحث لائیں گے۔ اس دوران اوباما کا لب و لہجہ کیا رہے گا، اس کا اندازہ اُن کے اُس انٹرویو سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جو اُنہوں نے میانمار پہنچنے سے پہلے اس ملک کی ایک نیوز ویب سائٹ ’دی اِیراوَیڈی‘ کو دیا۔

اس انٹرویو میں اوباما نے کہا:’’اپنے دورے کے دوران میانمار کی حکومت کو مَیں جو پیغامات دینا چاہتا ہوں، اُن میں سے ایک کا تعلق اس ذمہ داری سے ہے کہ ملک میں موجود تمام انسانوں کی سلامتی اور بھلائی کو یقینی بنایا جائے اور تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کا احترام کیا جائے۔‘‘ اوباما نے یہ بھی کہا کہ ’اگرچہ سیاسی اور اقتصادی محاذ پر کچھ پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے لیکن دیگر شعبوں میں جمہوری اصلاحات کی رفتار نہ صرف سست ہے بلکہ ترقیٴ معکوس دیکھنے میں آ رہی ہے‘۔

دو سال پہلے میانمار کی مغربی ریاست راکھین میں مذہبی تشدد شروع ہو جانے کے بعد سے تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار روہنگیا مسلمان خستہ حال کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں
دو سال پہلے میانمار کی مغربی ریاست راکھین میں مذہبی تشدد شروع ہو جانے کے بعد سے تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار روہنگیا مسلمان خستہ حال کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیںتصویر: Reuters

اوباما نے کہا:’پریس کی آزادی پر قدغنوں کے ساتھ ساتھ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے مخصوص نسلی علاقوں میں انسانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور پامالی کا سلسلہ جاری ہے، جس میں ماورائے عدالت قتل، آبروریزی اور بیگار لیے جانے کے واقعات بھی شامل ہیں‘۔

جمعرات کو اوباما کےامورِ سلامتی کے نائب مشیر بَین رہوڈز نے صحافیوں کو بتایا کہ اوباما میانمار میں اپنی تمام تر مصروفیات کے دوران اس ملک کی روہنگیا مسلمان اقلیت کا معاملہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ دو سال پہلے میانمار کی مغربی ریاست راکھین میں مذہبی تشدد شروع ہو جانے کے بعد سے تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار روہنگیا مسلمان خستہ حال کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اِن پُر تشدد واقعات کے نتیجے میں روہنگیا مسلمان بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے، جو کہ اس ملک میں شروع کیے گئے جمہوری عمل کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ بدھ کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی روہنگیا مسلمانوں کے ’تشویشناک انسانی حالات‘ کے خلاف آواز بلند کی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید