موسمیاتی تبدیلیاں: ہدف کا حصول مشکل تر
13 اپریل 2013مزید یہ کہ فضا کے لیے ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں نظر آنے والے اضافے میں سن 2030ء تک ڈرامائی کمی نہ کی گئی تو بین الاقوامی برادری موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اپنی جنگ ہار بھی سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی یہ مجوزہ رپورٹ اگلے چھ سات برسوں کے دوران ماحولیاتی پالیسیوں کے حوالے سے ایک روڈ میپ کا کام دے گی۔ اس رپورٹ کے خلاصے کی تفصیلات خبر رساں ادارے روئٹرز نے جاری کی ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ رواں صدی کے پہلے عشرے کے دوران کارخانوں، بجلی گھروں، کاروں اور ہوائی جہازوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر ضرر رساں مادوں کا اخراج ایک ریکارڈ سطح تک پہنچ گیا ہے۔ اس اضافے کی بڑی وجہ چین اور دیگر ایشیائی ملکوں میں تیزی سے ہونے والی صنعتی ترقی کو قرار دیا گیا ہے۔
پچیس صفحات پر مشتمل اِس خلاصے کے مطابق سبز مکانی گیسوں میں ہونے والا یہ اضافہ تقریباً 200 ممالک کے طے کردہ اُس ہدف کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ صنعتی انقلاب کے آغاز کے مقابلے میں زمینی درجہء حرارت میں اضافے کو زیادہ سے زیادہ دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جا ئے گا۔ درجہء حرارت کے اِس حد کے اندر اندر رہنے کی صورت میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج مثلاً طوفانوں، سیلابوں اور خشک سالی وغیرہ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ صنعتی انقلاب کے آغاز کے مقابلے میں ابھی سے درجہء حرارت میں 0.8 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے اُن سینکڑوں ماہرین نے تیار کی ہے، جو دنیا بھر میں ماحولیات کے شعبے کے ممتاز ترین ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور جن کی اس سے پہلے ایک رپورٹ سن 2007ء میں جاری کی گئی تھی۔
جمعہ بارہ اپریل کوجاری کیے گئے تازہ مسودے کے مطابق اگر گیسوں کے اخراج کو کنٹرول نہ کیا جا سکا تو پھر بین الاقوامی برادری کو فضا کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک کرنے کے لیے اضافی اقدامات پر بھی غور کرنا پڑے گا۔
اس سلسلے میں ممکنہ اقدامات کی ایک مثال کے طور پر نئے جنگلات کی کاشت تجویز کی گئی ہے تاکہ درخت فضا میں پائی جانے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اپنے خلیات میں جذب کر سکیں۔ ایک اور طریقہ، جس پر ابھی تحقیق ہونا باقی ہے، یہ ہو سکتا ہے کہ کسی طرح سے فضا میں موجود ضرر رساں گیسوں کو قابو کیا جائے اور زمین کے اندر دبا دیا جائے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق بحیرہء قطب شمالی میں برف کی تہہ میں ریکارڈ کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران امریکا اور روس کو گرمی کی لہروں اور خشک سالی کے وقفوں کا بھی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مرتبہ سامنا کرنا پڑا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ زمینی درجہء حرارت میں اضافے کی صورت میں اس طرح کے شدید موسم ایک معمول بن جائیں گے۔
اس مسودے میں توانائی کے معدنی وسائل مثلاً تیل اور گیس کو چھوڑ کر ایٹمی توانائی اور توانائی کے قابل تجدید ذرائع سے زیادہ سے زیادہ استفادے پر زور دیا گیا ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ عمارات میں توانائی کے زیادہ سے زیادہ باکفایت استعمال کو رواج دیا جائے، زیادہ مقدار میں بائیو فیول استعمال کیا جائے اور گوشت کی بجائے سبزی خوری کا راستہ اختیار کی جائے تاکہ مویشیوں کی جانب سے ضرر رساں گیسوں کا اخراج کم کیا جا سکے۔
(aa/ai(reuters