1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی حکومت پر تنقید کرنے والے بھارتی صحافی پھر نشانے پر

30 دسمبر 2023

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور واشنگٹن پوسٹ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے ایک اسرائیلی کمپنی کی طرف سے تیار کردہ پیگاسس اسپائی وئیر کے ذریعے پھر سے ہائی پروفائل صحافیوں کو نشانہ بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/4aiDv
Symbolfoto Pegasus Projekt
تصویر: Jean-François Frey//L'ALSACE/PHOTOPQR/MAXPPP7/picture alliance

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے شائع ہونے والی ایک مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت میں مودی حکومت نے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ایک بار پھر ہائی پروفائل بھارتی صحافیوں کو نشانہ بنایا ہے۔

 اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ  کی جانب سے تیار کردہ پیگاسس سافٹ وئیرموبائل فون میں موجود میسجز، ای میلز اور تصاویر تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فون کالوں کو سننے اور لوکیشن ٹریک کرنے کی صلاحیت رکھنے اور یہاں تک کے موبائل فون کے مالک کی فلم بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسپائی ویئر کے وسیع پیمانے پر استعمال کو دستاویزی شکل دی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی عام طور پر صرف حکومتوں یا سکیورٹی ایجنسیوں کو فروخت کی جاتی ہے۔ تاہم بھارت سمیت درجنوں دیگر ممالک میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے خلاف ہو رہا ہے۔

Spyware von NSO bei saudischen Frauenrechtsaktivistin Loujain al-Hathloul
پیگاسس اسپائی وئیر ایک اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کا تیار کردہ ہےتصویر: Sebastian Scheiner/AP/picture alliance

صحافیوں کے لیے خطرناک ماحول

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شائع کردہ حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی آن لائن نیوز آؤٹ لیٹ دی وائر سے منسلک صحافی سدھارتھ وردراجن اور دی آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آر پی) کے آنند منگلے کے زیر استعمال آئی فونز کو اسپائی ویئر کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔

 ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکیورٹی لیب کے سربراہ ڈونچا اوسیئربھائل نے کہا، ''بھارت میں صحافیوں کو محض اپنے کام کرنے کے لیے بڑھتی ہوئی غیر قانونی نگرانی کے خطرے کا سامنا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ان صحافیوں کے لیے پہلے سے موجود  خطرناک ماحول کو مزید ہوا دیتا ہے جنہیں ''سخت قوانین کے تحت قید،  بدنامی کی مہم، ہراساں کیے جانے اور دھمکیوں‘‘ کا سامنا ہے۔ بھارت کی حکومت نے فوری طور پر اس الزام کا جواب نہیں دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اسپائی ویئر کے استعمال کا سب سے حالیہ تصدیق شدہ کیس رواں سال اکتوبر میں پیش آیا۔

 حکومت مخالفین نشانے پر

نئی دہلی پر سال 2021ء میں یہ الزام لگا تھا کہ وہ پیگاسس کے ذریعے صحافیوں، حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی نگرانی میں مصروف ہے۔ لیک ہونے والی دستاویزات کے ساتھ یہ دکھایا گیا تھا کہ اسپائی ویئر کو 1,000 سے زائد بھارتی فون نمبروں کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔

Indien Neu Delhi | Pressekonferenz: Rahul Gandhi
اطلاعات کے مطابق کانگریس رہنما راہول گاندھی سمیت حکومت مخالف دیگر سیاستدانوں کے خلاف بھی پیگاسس اسپائی وئیر کا استعمال کیا گیاتصویر: Altaf Qadri/AP/picture alliance

 وزیر اعظم نریندر مودی کے اہم سیاسی حریف اور حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی بھی نشانہ بننے والوں میں شامل تھے۔ تاہم حکومت نے کسی بھی طرح کی ’غیر قانونی نگرانی‘ کرنے سے انکار کیا تھا لیکن مودی حکومت  ان الزامات کے خلاف  بھارتی سپریم کورٹ کی تحقیقات میں تعاون کرنے سے انکار کرتے ہوئے ان تحقیقات کے نتائج کو بھی عام نہیں کیا۔

بھارتی حکومت کی جاسوسی سرگرمیوں سے متعلق تازہ رپورٹ کے مطابق جن دوتنظیموں کو ہدف بنایا گیا، ان میں سے (او سی سی آر پی) نے اگست میں وزیر اعظم مودی کے انتہائی قریبی سمجھے جانے والے بھارتی کاروباری ٹائیکون گوتم اڈانی کے مالی معاملات کی تحقیقات شائع کی تھیں۔

اڈانی گروپ کو رواں سال کے شروع میں اس وقت 100 بلین ڈالر سے زائد کا مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا  تھا، جب امریکہ کی ایک شارٹ سیلر کمپنی 'ہینڈنبرگ ریسرچ‘ کی رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ اڈانی گروپ کئی عشروں سے اسٹاک ہیرا پھیری اور اکاؤنٹ فراڈ میں ملوث ہیں۔ اڈانی گروپ  نے ان الزمات کو اپنے خلاف ایک ''منظم مہم‘‘ قرار دے کرمسترد کر دیا تھا۔

 آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ کے آنند منگلے نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کی جانب سے اڈانی گروپ کو ان کی مبینہ ہیرا پھیری سے متعلق سوالات بھجوانے کے صرف ''چند گھنٹوں کے اندر‘‘ ہی انہیں جاسوسی کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اس کے لیے اڈانی گروپ یا مودی حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا کیونکہ ہمارے پاس ابھی تک ثبوت نہیں ہیں۔‘‘ تاہم ان کا مزید کہنا تھا، ''لیکن ماضی کے واقعات ہمیں اس جانب سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘‘

Indien | Gautam Adani und Narendra Modi
بھارتی بزنس مین گوتم اڈانی (بائیں طرف) کو بھارتی وزیر اعظم کے انتہائی قریب سمجھا جاتا ہےتصویر: Siddharaj Solanki/Hindustan Times/IMAGO

 سکڑتی ہوئی ا‌ٓزادی صحافت

دی وائر کے صحافی وردراجن نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ انہیں نئی ​​دہلی میں ایک ممتاز نیوز پبلشر کی حراست کی مخالفت پرنشانہ بنایا گیا تھا۔ بھارت میں سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کے دور میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ملک میں آزادی صحافت کو نقصان پہنچا ہے۔

صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے دنیا میں آزادی صحافت سے متعلق مرتب کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں نریندر مودی کی طرف سے وزیر اعظم کا عہدہ سنھالنے کے بعد سے بھارت 180 ممالک  کی اس فہرست میں 161 نمبر پر آچکا ہے جبکہ مودی سے قبل بھارت اس فہرست میں 21ویں نمبر پر تھا۔

 حکومت پر تنقیدی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا الزام ہے کہ انہیں عدالتوں کی جانب سے بھی ہراساں کیا جاتا ہے اوران کے خلاف آن لائن بدسلوکی کی مسلسل مہم چلائی جاتی ہے۔

م ق⁄ ش ر( اے ایف پی)

پیگاسس، کیسے جاسوسی کرتا ہے؟