1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موثر خواب آور دوا کی تلاش

بریگیٹے اوسٹراتھ/ کشور مصطفیٰ11 ستمبر 2013

خواب آور ادویات کی شہرت کچھ اچھی نہیں ہے۔ یہ خطرناک ہوتی ہیں اور ان ادویات کا استعمال عادی بنا دیتا ہے۔ تاہم ایسے مریض جن میں بے خوابی کا مرض پرانا ہو جاتا ہے، ان کے پاس خواب آور ادویات لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

https://p.dw.com/p/19g3W
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی کے دارالحکومت برلن میں قائم روبرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے اعداد وشمار کے مطابق 25 فیصد جرمن باشندوں میں بے خوابی کی بیماری کے اثار پائے جاتے ہیں جبکہ امریکا میں 10 سے 15 فیصد بالغ افراد میں یہ بیماری کہنہ عارضے کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ اس بارے میں معلومات بے خوابی سے متعلق امریکی قومی تحقیقی مرکز نے فراہم کی ہیں۔

ذہنی انتشار نیند کا دشمن

اس کی وجوہات زیادہ تر فطری اور نفسیاتی ہوتی ہیں۔ یہ کہنا ہے ایک جرمن ماہر نفسیات وانس گؤنٹر ویس کا۔ وہ کہتے ہیں ’’ یہ مریض سونے کے کمرے میں جاکر ذہن کو تفکرات اور خیالات سے آزاد کرنے کا عمل بھول چُکے ہوتے ہیں۔ یہ اپنی روز مرہ زندگی کے کاموں سے متعلق الجھنوں میں گرفتار رہتے ہیں‘‘۔

Gift Pillen Medizin
خواب آور ادویات کو زہریلی دوائیں بھی کہا جاتا ہےتصویر: Fotolia/Dan Race

طبی ماہرین کا تاہم کہنا ہے کہ جسم کے چند عضو جیسے کے تھائی رائیڈ گلینڈ یا غدو ورقیہ جو گردن میں سانس کی نالی کے قریب ہوتا ہے اور جس سے تھائی راکسن ہارمون خارج ہوتا ہے، کی خرابی بھی بے خوابی کا سبب بن سکتی ہے۔

68 سالہ آنے ماری گزشتہ 19 برسوں سے بے خوابی کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ اُن کی اس بیماری کا سبب دراصل اُن کی والدہ کی موت بنی۔ اُس واقعے نے اُن کے ذہن پر اتنے گہرے منفی اثرات مرتب کیے کہ وہ اپنی نیند سے محروم ہو گئیں۔ وہ کئی سالوں سے ڈاکٹروں کے چکر لگاتے لگاتے اور اپنی بیماری کے بارے میں ان کی مدد حاصل کرنے کی کوشش میں رہیں تاہم انہیں افاقہ نہ ہو سکا۔ آخر کار انہوں نے خواب آور گولیوں کا سہارا لیا اور ہر رات اس ٹیبلیٹ کا ایک چوتھائی حصہ کھانے لگیں۔ وہ کہتی ہیں’’ دس برس قبل میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یا تو تم اس ٹیبلٹ کا پابندی سے استعمال کرو یا مر جاؤ۔ نیند کھانے اور پینے کی طرح زندگی کے لیے ضروری ہے‘‘۔

دماغ کو سونے پر مجبور کر دینا

قدرتی طریقے سے سونا سب سے اچھا اور صحت بخش طریقہ ہے۔ تاہم بہت سے مریض نیند کی گولی کے بغیر سو ہی نہیں سکتے۔ اس وجہ سے سائنسدانوں نے ان گولیوں کے ضمنی اثرات پر تحقیق کو ضروری سمجھا۔ خاص طور پر 50 کے عشرے میں ان گولیوں کا استعمال بہت عام ہو گیا تھا اور ڈاکٹروں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ بہت سے مریض انہیں نشے کے عادی افراد کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ اس دوا کا زیادہ استعمال کس حد تک خطرناک ہو سکتا ہے اس امر کا اندازہ ایک جیتی جاگتی مثال سے ہوا۔ معروف ہولی ووڈ اداکارہ میریلن منرو نے خواب آور ادویات کی مدد سے ہی اپنی جان حود لے لی تھی۔

Schlaftabletten mit Wasserglas Symbolbild
ان دواؤں کی مدد سے اکثر لوگ خود کُشی بھی کرتے ہیںتصویر: DW

ایک نئی خواب آور دوا کی امید

مستقبل میں ایک ایسی دوا کی ایجاد کی امید کی جا رہی ہے جو نیند کی کمی یا بے خوابی کے شکار مریضوں کے لیے مفید ثابت ہو گی اور اس کے ضمتی اثرات بھی نیند کی دیگر دواؤں کی طرح خوفناک نہیں ہوں گے۔ محققین نے DORA 22 کے نام سے ایک نیا کمپاؤنڈ تیار کیا ہے جس کا تجربہ چوہوں اور بندروں پر کیا گیا اور یہ کامیاب ثابت ہوا۔ اس کمپاؤنڈ کو Orexin\inhibiting یعنی ایک ہاضم دوا کے طور پر استعمال ہونے والے بے رنگ و بو شفاف مادے کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ Orexin ٹرنسمیٹر جسم کے اندر رات اور دن کے توازن یا تال کو برقرار رکھتا ہے۔ اس کی مزاحمت کے ساتھ تیار کردہ کمپاؤنڈ بے خوابی کے مریضوں کے لیے مفید ثابت ہوگا اور اس کے ضمنی اثرات بھی نہیں ہیں۔