1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ملازمت ميں صنفی مساوات کا حصول اکاسی برس دور‘

عاصم سلیم28 اکتوبر 2014

ايک تازہ رپورٹ ميں يہ انکشاف کيا ہے کہ ملازمتوں کے حوالے سے صنفی عدم مساوات آج بھی ايک مسئلہ ہے اور اس سلسلے ميں بہتری کے ليے يکساں معيارات، مواقع اور فوائد تک پہنچنے کے ليے ابھی مزيد کئی دہائیوں تک انتظار کرنا پڑے گا۔

https://p.dw.com/p/1Dd1C
تصویر: Fotolia/opolja

ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے منگل اٹھائيس اکتوبر کو جاری کردہ ايک رپورٹ کے مطابق گرچہ صحت اور تعليم جيسے شعبوں ميں صنفی بنيادوں پر تفريق تيزی سے ختم ہو رہی ہے تاہم ملازمت ميں صنفی عدم مساوات کو مکمل طور پر ختم کرنے ميں 2095ء تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ آرگنائزيشن کی رپورٹ کے مطابق پچھلے کوئی نو برس ميں يہ عدم مساوات قريب نہ ہونے کے برابر ہی کم ہوئی ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے اس بارے ميں جاری کردہ ايک بيان ميں کہا گيا ہے کہ موجودہ رفتار سے کام کاج يا ملازمتوں کے حوالے سے صنفی عدم مساوات کے مکمل خاتمے ميں مزيد اکاسی برس لگيں گے۔ فورم کے بانی و سربراہ کلاؤس شواب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ دنيا کے مفاد ميں يہی ہو گا کہ اس عمل ميں تيز رفتاری لائی جائے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’صنفی مساوات کا حصول اقتصادی وجوہات کے سبب لازمی ہے۔ صرف وہی معيشتيں ترقی کر پائيں گی اور مسابقت کی دوڑ ميں آگے رہيں گی، جو صلاحيتوں کے حامل تمام افراد سے مستفيد ہو سکيں گی۔‘‘

WEF کی يہ رپورٹ 142 ممالک کے اعداد و شمار پر مشتمل ہے
WEF کی يہ رپورٹ 142 ممالک کے اعداد و شمار پر مشتمل ہےتصویر: Kirill Kedrinski/Fotolia.com

WEF کی يہ رپورٹ 142 ممالک کے اعداد و شمار پر مشتمل ہے۔ اس ميں يہ ديکھا گيا کہ مختلف ممالک ميں تعليم، صحت اور سياست ميں شموليت کے علاوہ ديگر کئی شعبوں ميں وسائل اور مواقع کی تقسيم کيسی رہی۔ قريب تمام ممالک نے صحت سے متعلق سہوليات کی فراہمی کے شعبے ميں صنفی بنيادوں پر عدم مساوات کو کم کيا، جن ميں سے پينتيس ممالک نے تو اس تفريق يا فاصلے کو مکمل طور پر ختم کر ديا۔ اسی طرح تعليم کے مواقع کی فراہمی ميں بھی پچيس رياستيں عدم مساوات کو ختم کرنے ميں کامياب رہيں۔

اس رپورٹ کے مطابق خواتين کی سياست ميں شموليت اب بھی کافی کم ہے اور مجموعی طور پر دنيا بھر کے فيصلہ سازوں ميں صرف اکيس فيصد ہی خواتین ہيں۔ تاہم يہ امر بھی اہم ہے کہ اس ہی شعبے ميں سب سے زيادہ ترقی بھی ريکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ کی مصنفہ سعديہ زاہدی کہتی ہيں، ’’کچھ کيسوں ميں نو سال قبل کے مقابلے ميں چھبيس فيصد زيادہ خواتين پارليمان کا حصہ ہيں اور کچھ ميں خواتين وزراء کی تعداد ميں پچاس فيصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔‘‘ زاہدی کے بقول گرچہ يہ کافی بڑی تبديلی ہے تاہم کئی ديگر شعبوں ميں ابھی کافی کام کی ضرورت ہے۔

آئس لينڈ کی قيادت ميں پانچ نارڈک ممالک صنفی مساوات کے حوالے سے دنيا بھر ميں سرفہرست قرار پائے۔ ان کے بعد نکاراگوا، روانڈا آئرلينڈ، فلپائن اور بيلجيم کو پہلے دس ممالک ميں شامل کيا گيا۔ درجہ بندی ميں امريکا کا نمبر بيسواں رہا۔ يورپی ملک فرانس نے اپنی پوزيشن ميں خاطر خواہ بہتری کی ہے اور پينتاليسويں نمبر سے اب سولہويں نمبر پر ہے۔ فرانس ميں اب خواتين وزراء کی شرح انچاس فيصد ہے۔ اس درجہ بندی ميں برطانيہ چھبيسويں پوزيشن پر ہے۔ بڑی معيشتوں ميں برزايل اکہتر، روس پچھتر، چين ستاسیويں اور بھارت 114 ويں نمبر پر ہے۔