1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معذوری کمزوری نہیں ہوتی، پاکستانی نیشنل چیمپین اسداللہ

دانش بابر، پشاور10 جون 2014

انسان ہمت اور حوصلے سے ہر وہ کام ممکن بنا سکتا ہے، جس کوحاصل کرنے کی وہ ٹھان لیتا ہے، چاہے وہ کام کتنا ہی کٹھن اور دشوار کیوں نہ ہو۔ مردان سے تعلق رکھنے والے اسد اللہ نے بھی ایسا ہی کر دکھایا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CFCY
تصویر: DW/D. Baber

اسداللہ کو چھ ماہ کی عمر میں پولیو کے مرض نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہمیشہ کے لیے دونوں ٹانگوں سے معذور ہوگیا۔ لیکن اس نوجوان نے اس معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بنایا۔ بارہویں جماعت کا یہ طالب علم گزشتہ دس برسوں سے پاکستان ویل چیئر سو میٹر، دوسو میٹر، تین کلو میٹر اور چھ کلومیٹر ریس(Wheel Chair Race)کا نیشنل چیمپین ہے۔ اسد اللہ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا، ’’میری رینکنگ آل پاکستان نمبر ون ہے اور یہی پوزیشن میری دس سال سے مسلسل چلتی آرہی ہے۔ 2013ء اور 2014ء دونوں برسوں میں، میں نے مسلسل دو گولڈمیڈل جیتے۔‘‘

سن 2005ء سے لے کر اب تک چار گولڈ میڈل اور 80 سے زائد دیگر میڈلز اور ایوارڈ جیتنے والے اسداللہ کا کہنا ہے کہ بچپن ہی سے اس کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا، غربت اور معذوری کی وجہ سے اس کی اتنی حیثیت نہیں تھی کہ وہ اپنے لیے گھر والوں سے ایک ویل چیئر کی فرمائش کر سکیں۔ اسداللہ کے والد رکشہ چلا کر گھر کے گیارہ افراد (والدین اور نو بہن بھائی) کا خرچ برداشت کرتے تھے۔ اسد اللہ کا کہنا تھا، ’’میں نے ہمت نہیں ہاری اور کبھی لوگوں کی مدد سے تو کبھی خود ہاتھوں کے بل اسکول تک جایا کرتا تھا۔‘‘

Auszeichnungen von Asad Ullah Rollstuhlfahrer aus Pakistan
اسد اللہ کی یہ خواہش ہے کہ حکومت اس کو بین الاقوامی پیرا اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا موقع دے تاکہ ملک کے لیے گولڈ میڈل حاصل کیا جا سکےتصویر: DW/D. Baber

اسد اللہ کہتے ہیں کہ صحت مند لوگوں کو کھیلتے دیکھ کر شروع میں ان کو بہت مایوسی ہوتی تھی کہ وہ کیوں ان کی طرح نہیں کھیل سکتے لیکن اب وہ فخر کے ساتھ بتاتے ہیں کہ وہ نا صرف دوڑ میں پاکستان کا چیمپین ہے بلکہ وہ دیگر کھیل ویٹ لفٹنگ، ٹیبل ٹینس، لان ٹینس، سوئمنگ اور باسکٹ بال سمیت دیگر کھیل بھی عام لوگوں کی طرح ویل چیئر پر بیٹھ کر کھیل سکتا ہے۔

اسد اللہ کی یہ خواہش ہے کہ حکومت اس کو بین الاقوامی پیرا اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا موقع دے تاکہ ملک کے لیے گولڈ میڈل حاصل کیا جا سکے۔ اسداللہ کی نظریں 2016ء میں ہونے والے اولمپکس پر لگی ہیں۔ اسداللہ کے مطابق پاکستان میں معذوروں کو اتنی سہولیات نہیں دی جاتی جتنی صحت مند افراد کو دی جاتی ہے۔
دوسری طرف پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر محب اللہ کا کہنا ہے، ’’پاکستان میں بہت ذیادہ ٹیلنٹ موجود ہے، خاص طور پر معذور افراد نے ہمیشہ ملک کا نام روشن کیا ہے، چاہے وہ ایتھلیٹکس مقابلے ہوں یا پھر کرکٹ کے میچ۔‘‘

وہ اسد اللہ کے بارے میں کہتے ہیں، ’’اس نوجوان نے تو پاکستان کا نام روشن کیا ہے، ہم ان لوگوں کو بھی کہتے ہیں، جنہوں نے نام روشن نہیں کیا کہ وہ بھی آئیں اور ان کو جس قسم کی بھی ضرورت ہو،تو ہم ان کو سہولیات فراہم کریں گے اور یہ بہت اچھی بات ہے کہ معذور لوگ آئیں اور آگے بڑھیں اور ملک کا نام روشن کریں‘‘۔


اسداللہ کے دوستوں کا بھی یہی خیال ہے کہ ہمت، حوصلہ اور خود اعتمادی کی بات کی جائے تو اس کی زندہ مثال اسداللہ ہے، جس نے کم وسائل، غربت اور پولیو کا مریض ہونے کے باوجود یہ ثابت کر دیا ہے کہ معذوری نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اسداللہ بھی کہتے ہیں کہ اگر عزائم پختہ ہوں تو منزل دور نہیں ہوتی،’’ہمارے ہاں معذور اس کو سمجھا جاتا ہے، جس کے ہاتھ پاؤں نہ ہوں لیکن یہ غلط بات ہے کیونکہ معذوری لوگوں کے ذہنوں میں ہے، یہاں کوئی بھی معذور نہیں ہے، کیونکہ معذور تو اس بندے کو کہا جاتا ہے جو کوئی کام نہ کر سکتا ہو۔‘‘