1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر: صحافیوں کو طویل سزائیں، دنیا حیران

امجد علی23 جون 2014

ایک مصری عدالت نے عرب ٹی وی چینل الجزیرہ کے صحافیوں کے خلاف دنیا بھر میں ہدف تنقید بننے والے مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے تین صحافیوں کو سات سات سال جبکہ نو ملزمان کو ان کی غیر حاضری میں دس دس سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1COS3
(بائیں سے دائیں) پیٹر گریسٹ، محمد فاضل فہمی اور باھر محمد سلاخوں کے پیچھے نظر آ رہے ہیں
(بائیں سے دائیں) پیٹر گریسٹ، محمد فاضل فہمی اور باھر محمد سلاخوں کے پیچھے نظر آ رہے ہیںتصویر: Reuters

دو ملزمان کو بری کر دیا گیا جبکہ جن تین صحافیوں کو سات سات سال کے لیے جیل بھیجنے کا فیصلہ سنایا گیا ہے، اُن میں کینیا میں الجزیرہ کے نامہ نگار آسٹریلوی صحافی پیٹر گریسٹ اور قاہرہ میں الجزیرہ انگلش کے سابق بیورو چیف مصری نژاد کینیڈین محمد فاضل فہمی کے ساتھ ساتھ مصری پروڈیوسر باھر محمد بھی شامل ہیں۔ باھر محمد کو غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں تین سال کی اضافی سزا بھی سنائی گئی ہے۔ ان تینوں کو گزشتہ سال دسمبر میں گرفتار کیا گیا تھا۔

محمد فاضل فہمی (دائیں) اور اُس کے ساتھی صحافی عدالتی فیصلہ سننے کے بعد
محمد فاضل فہمی (دائیں) اور اُس کے ساتھی صحافی عدالتی فیصلہ سننے کے بعدتصویر: Reuters

قطری ٹی وی نیوز چینل الجزیرہ نے اس عدالتی فیصلے کو ’غیر منصفانہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے اور مصر پر زور دیا ہے کہ یہ ’غیر منطقی‘ سزائیں ختم کی جائیں۔ الجزیرہ کے مینیجنگ ڈائریکٹر النتسی کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے:’’ہمارے تینوں ساتھیوں کو ایک منٹ کے لیے بھی زیرِ حراست رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘

بیس فروری کو شروع ہونے والے اس مقدمے میں ملزمان پر مصر میں ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ یعنی اخوان المسلمون کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور مجموعی طور پر چار غیر ملکیوں اور سولہ مصریوں پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ چار غیر ملکیوں پر یہ الزام تھا کہ اُنہوں نے ’غلط معلومات‘ یا دوسرے الفاظ میں جھوٹی معلومات پھیلائی ہیں۔ جو ملزمان مصر کے شہری ہیں، اُن پر الزام تھا کہ وہ اخوان المسلمون کے رکن ہیں۔

مغربی دنیا کی حکومتیں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں مصر میں پریس کی آزادی کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کرتی چلی آ رہی ہیں
مغربی دنیا کی حکومتیں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں مصر میں پریس کی آزادی کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کرتی چلی آ رہی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

سات سات سال کی سزائے قید پانے والے تینوں ملزمان کا مؤقف یہ رہا ہے کہ اُن کے خلاف لگائے گئے الزامات غلط ہیں۔ پیر 23 جون کو جب یہ تینوں ہتھکڑیاں پہنے کورٹ روم میں داخل ہوئے تو وہ کافی خوشگوار مُوڈ میں تھے اور اُنہوں نے وہاں موجود اپنے اہلِ خانہ کو دیکھ کر ہاتھ لہرائے۔ اِن صحافیوں کے گھر والوں نے اُنہیں یہ بتا رکھا تھا کہ اُن کے خیال میں آج اُنہیں بری کر دیا جائے گا۔

پیر کو جب عدالت نے آسٹریلیا کے پیٹر گریس کے لیے سات سال کی سزائے قید سنائی تو عدالت میں گریسٹ کا بھائی مائیکل بھی موجود تھا، جس کی آنکھوں میں یہ فیصلہ سن کر آنسو تیرنے لگے۔ اُس نے کہا:’’مَیں ہل کر رہ گیا ہوں، یہ انتہائی تباہ کن فیصلہ ہے۔‘‘

اس فیصلے نے مصر میں پریس اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ مغربی دنیا کی حکومتیں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مصر میں پریس کی آزادی کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کرتی چلی آ رہی ہیں۔