1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسیحیوں کو ہندو بنانے پر بھارت میں غم وغصہ

افسر اعوان21 دسمبر 2014

بھارت کا بنیاد پرست گروپ 200 مسیحیوں کو ہندو بنانے کے بعد شدید تنقید کی زد میں ہے۔ وزیراعظم مودی کی آبائی ریاست میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد بھارتی حکومت کے ہندو نواز اقدامات کے حوالے سے تحفظات میں اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/1E8EW
تصویر: Getty Images/ Punit Paranjpe

ہندو بنیاد پرست تنظیم وشوا ہندو پریشد VHP کی طرف سے ہفتہ 20 دسمبر کو بتایا گیا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں قریب 200 قبائلی مسیحیوں کو ان کے اصل ہندو مذہب کی طرف واپس لایا گیا ہے۔

بڑے پیمانے پر مذہب کی تبدیلی کے اس واقعے کو نہ صرف مسیحی گروپوں بلکہ مودی حکومت کے سیاسی مخالفین کی طرف سے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ بھارت میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو زبردستی ہندو بنانے والی بنیاد پرست ہندو تنظیموں مثلاﹰ وشوا ہندو پریشد اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ RSS وغیرہ کا نریندر مودی کی حکمران جماعت کے ساتھ تعلق ہے۔

اپوزیشن کانگریس پارٹی کے ایک رہنما دِگ وِجے سنگھ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا گیا ہے، ’’انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہندو بنیاد پرست گروپ VHP اور RSS ہندو مذہب کے ذریعے اپنی طاقت دکھا رہے ہیں۔۔۔ یہ تاریخ اور معاشی پالیسیوں کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

’’ VHP اور RSS ہندو مذہب کے ذریعے اپنی طاقت دکھا رہے ہیں‘‘
’’ VHP اور RSS ہندو مذہب کے ذریعے اپنی طاقت دکھا رہے ہیں‘‘تصویر: AP

گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک مسیحی مبلغ کے مطابق وہ یہ بات ’’تسلیم نہیں کر سکتے کہ کوئی ایسا شخص جو مسیحی ہو وہ اپنی مرضی سے کوئی دوسرا مذہب اخیتار کر لے گا۔‘‘ فادر ڈومینِک کا مزید کہنا تھا، ’’VHP لوگوں کو زبردستی اور لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔‘‘

ہفتہ 20 دسمبر کو مذہب کی تبدیلی کی تقریب ریاست گجرات کے دارالحکومت احمدآباد سے 350 کلومیٹر جنوب میں واقع ایک قبائلی گاؤں میں منعقد کی گئی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ تقریب مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور نظریاتی طور پر اس کے قریب RSS کی طرف سے اس مطالبے کے کئی گھنٹے بعد منعقد کی گئی جس میں زبردستی مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون سازی کی بات کی گئی تھی۔

ریاست گجرات کے لیے وشوا ہندو پریشد کے سیکرٹری اجیت سولنکی نے اے ایف پی کو بتایا، ’’200 سے زیادہ افراد کو گلے میں پہنے جانے والے اپنے مذہبی نشانات مقدس آگ میں پھینکنے کے لیے کہا گیا اور انہیں نئے نشانات دیے گئے جن پر ہندو بھگوان رام کی تصویر موجود تھی۔‘‘

تاہم سولنکی نے مذہب کی اس تبدیلی کے لیے کسی قسم کی زبردستی یا فائدہ پہنچانے کے وعدے استعمال کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ تبدیلی لوگوں کی اپنی مرضی کے مطابق تھی۔

بڑے پیمانے پر مذہب کی تبدیلی کا یہ معاملہ بھارتی پارلیمان میں بھی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے جہاں اپوزیشن ارکان پارلیمان کی طرف سے وزیراعظم مودی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ قبل ازیں معاشی طور پر بدحال مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کے ایک ایسے ہی واقعے پر اپنا بیان جاری کریں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی سے منسلک ایک بنیاد پرست ہندو گروپ کی طرف سے گزشتہ ہفتے آگرہ میں انتہائی غریب علاقے میں رہنے والے 50 مسلمانوں کو ہندو بنانے کی خبروں پر ملک بھر میں تنقید کی گئی تھی۔