1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مریخ پر پہلی بار تازہ پانی کی جھیل کے آثار دریافت

افسر اعوان10 دسمبر 2013

امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کی طرف سے مریخ پر بھیجی گئی روبوٹ گاڑی کیوروسٹی نے پہلی بار اس سرخ سیارے کی سطح پر ایسے ثبوت تلاش کیے ہیں جس سے معلوم ہوا ہے کہ اس مخصوص جگہ پر تازہ پانی کی ایک جھیل موجود رہی تھی۔

https://p.dw.com/p/1AWRM
تصویر: picture alliance/dpa/NASA

مریخ کی سطح پر واقع اس مقام پر اب پانی تو موجود نہیں ہے تاہم کیوروسٹی پر موجود سائنسی آلات کے ذریعے وہاں کی زمین کی کھدائی اور چٹانوں کے کیمیائی تجزیے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ماضی میں موجود رہنے والی پانی کی اس جھیل کے حالات انتہائی چھوٹے جانداروں یعنی بیکٹیریا یا مائیکروبیئل لائف کے لیے سازگار تھے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ صورتحال قریب 3.6 ارب سال پہلے موجود تھی۔

موبائل سائنس لیبارٹری نے ریتلی اور گارے سے بننے والی چٹانوں میں سوراخ کیے جہاں سے چکنی مٹی جیسی معدنیات موجود تھیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس مقام پر پانی موجود رہا تھا
موبائل سائنس لیبارٹری نے ریتلی اور گارے سے بننے والی چٹانوں میں سوراخ کیے جہاں سے چکنی مٹی جیسی معدنیات موجود تھیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس مقام پر پانی موجود رہا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

تحقیقی جریدے ’سائنس‘ میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق ان چٹانوں میں کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن، نائٹروجن اور سلفر کے آثار پائے گئے جو ’’سادہ مائیکروبیئل لائف کے لیے بہترین حالات فراہم کرتے ہیں‘‘۔ اس کے علاوہ اس نئی دریافت کے نتائج امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں ہونے والی ’امیریکن جیوفزیکل یونین‘ کی میٹنگ میں بھی پیش کیے گئے۔

سائنسدانوں کے مطابق اس طرح کی بیکٹیریل لائف کے اقسام جنہیں سائنسی اصطلاح میں کیمیولیتھوآٹوروفس 'chemolithoautotrophs' کہا جاتا ہے، اسی طرح کے حالات میں ہی ہمارے سیارے زمین پر پائی جاتی ہیں، خاص طور پر غاروں اور سمندر کی تہہ کے نیچے موجود سوراخوں وغیرہ میں۔

اس رپورٹ کے شریک مصنف اور لندن کے امپیریل کالج کے محقق سنجیو گُپتا کے مطابق، ’’یہ پہلا موقع ہے کہ ہمیں درحقیقت ایسی چٹانیں ملی ہیں جو مریخ کی سطح پر جھیلوں کی موجودگی کے ثبوت فراہم کرتی ہیں۔‘‘

محققین کو اس سرخ سیارے کے دیگر مقامات پر بھی پانی کے آثار مل چکے ہیں
محققین کو اس سرخ سیارے کے دیگر مقامات پر بھی پانی کے آثار مل چکے ہیںتصویر: NASA/JPL-Caltech

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ بہت زبردست ہے کیونکہ جھیلیں سادہ مائیکروبیئل زندگی کی موجودگی، پھیلاؤ اور محفوظ رہنے کے لیے بہترین ماحول کی حامل ہوتی ہیں۔‘‘

گپتا کے مطابق ان چٹانوں میں زندگی کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں ملے تاہم اس موبائل سائنس لیبارٹری نے ریتلی اور گارے سے بننے والی چٹانوں میں سوراخ کیے جہاں سے چکنی مٹی جیسی معدنیات موجود تھیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس مقام پر پانی موجود رہا تھا۔ ریتلی چٹانیں اپنی ساخت کے لحاظ سے ویسی ہی ہیں جیسی زمین پر دریاؤں کے قریب پائی جاتی ہیں جس سے سائسندانوں کو یہ مفروضہ قائم کرنے میں مدد ملی کہ ایک پہاڑ کے قریب پائی جانے والی اس جھیل میں کبھی دریا آکر گرتا تھا۔

کیوروسٹی اور اس سے قبل مریخ پر بھیجے جانے والی دو روبوٹک گاڑیوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق محققین کو اس سرخ سیارے کے دیگر مقامات پر بھی پانی کے آثار مل چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس تازہ دریافت سے اس بات کے مضبوط شواہد ملتے ہیں کہ مریخ کے حالات کبھی ماضی میں اس طرح کے موجود رہے ہیں کہ وہاں زندگی ممکن ہو۔