مذاہب میں تصاویر کی ممانعت پر بحث
15 جنوری 2015انتہا پسند مسلمان مصوری، کیمرے سے اتری تصاویر اور فلموں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تاہم ڈی ڈبلیو کے اسٹیفن ڈیگے اپنے ایک جائزے میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن میں کہیں بھی تصاویر کی ممانعت کے حوالے سے کوئی واضح احکامات موجود نہیں ہیں۔ وہاں لکھا ہے کہ خدا نے انسانوں اور دیگر جانداروں کو تخلیق کیا۔ انسان ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اور اگر وہ اُن کی تصاویر بنائے تو وہ اُن میں زندگی کی روح نہیں پھونک سکتا۔
جرمن شہر ٹیوبنگن کے مستشرق رُوڈی پاریٹ قرآن کا جرمن زبان میں ترجمہ کر چکے ہیں اور اُن کے اس ترجمے کو اسلامی علوم کے ماہرین میں خاصی اہمیت حاصل ہے۔ رُوڈی پاریٹ کے مطابق تصاویر کی ممانعت کا ذکر احادیث میں ملتا ہے، جن کی مجموعی تعداد ایک لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ کئی حدیثوں میں تصاویر کے حوالے سے تنقید بلکہ انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔
فقہ یعنی اسلامی قانون میں بھی تصاویر کی ممانعت پر بحث موجود ہے۔ البخاری میں درج ایک حدیث کے مطابق فرشتے اُس گھر یا کمرے میں داخل نہیں ہوتے، جس میں کوئی کتاّ یا کوئی تصویر موجود ہو۔ مطلب یہ کہ جانداروں کی شبیہ بنانے کا غالباً مطلب یہ ہے کہ انسان گویا ’خدا کی طرح بننا‘ چاہتا ہے۔ کتاّ ناپاک تصور کیا جاتا ہے جبکہ تصاویر کو بتوں کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ گویا جہاں تصاویر ہوں، وہاں عبادت نہیں ہو سکتی۔
اسلام میں تصاویر منع نہیں
احادیث جمع کرنے کا کام پیغمبر اسلام کی رحلت کے دو تا تین سو سال بعد عمل میں آیا تھا۔ ان احادیث میں بھی تصاویر کی ممانعت کا کوئی واضح حکم موجود نہیں ہے اور مختلف احادیث کے مستند یا ضعیف ہونے کے بارے میں بھی آج تک مختلف علماء کے مابین اختلافات پائے جاتے ہیں۔
جب 630ء میں پیغمبر اسلام کی قیادت میں مسلمان فاتحین کے طور پر مکہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کو تمام بتوں سے پاک کروا دیا گیا اور کعبے کو مسلمانوں کے مقدس ترین مقام کا درجہ حاصل ہو گیا۔ سوئٹزرلینڈ کی خاتون مستشرق سِلویا نائف لکھتی ہیں کہ اس اقدام کا مقصد عربوں کی اسلام سے پہلے کی مذہبی روایات کو ختم کرنا اور اُن کی جگہ ایک خدا کے تصور کو رائج کرنا تھا‘۔
اگرچہ سنّی اسلام میں تصاویر کی ممانعت کے تصور پر کافی حد تک عملدرآمد ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مختلف مسلمان ممالک میں ’اسلامی مصوری‘ بھی رائج رہی اور منی ایچر تصاویر میں اسلام اور دیگر مذاہب کی اہم شخصیات دکھائی جاتی رہیں۔ ایران میں اور مغل دور کے ہندوستان میں ایسی مصوری کو بے حد عروج حاصل ہوا۔
مسیحیت میں بھی تصاویر کی اشاعت غیر متنازعہ نہیں ہے۔ خاتون مستشرق نائف کہتی ہیں کہ ’عہد نامہٴ قدیم میں خدا کی تصاویر بنانے سے واضح طور پر منع کیا گیا ہے‘۔ مسیحیت میں آٹھویں اور نویں صدی میں حضرتِ عیسیٰ اور اُن کی والدہ مریم کی تصاویر بنانے پر ایک زبردست نزاعی بحث چھڑی تھی، جو آنے والی صدیوں میں کلیسا کی طرف سے تصاویر کے حق میں کیے جانے والے فیصلے پر منتج ہوئی۔
خدا کے عذاب کا خوف
تینوں ابراہیمی مذاہب یعنی یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں یہ تصور موجود ہے کہ خدا کے احکامات نہ ماننے کی صورت میں عذابِ الٰہی نازل ہو گا۔ آج کل انتہا پسند اللہ کے نام پر ایک بار پھر تصاویر کی ممانعت کے حکم کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مصوری کی تاریخ کے جرمن ماہر ہورسٹ بریڈن کامپ نے اخبار ’زوڈ ڈوئچے‘ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ‘تصاویر کی وجہ سے انسانوں کا قتل، جیسا کہ پیرس میں دیکھنے میں آیا، ایک ایسے اسلامی گروپ کی سیاسی حکمتِ عملی ہے، جو تصویر اور خدا میں فرق روا نہیں رکھنا چاہتا‘۔