1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’متبادل نوبل انعام‘ کی حقدار عاصمہ جہانگیر سے خصوصی گفتگو

انٹرویو : شامل شمس/ ترجمہ: عاطف بلوچ26 ستمبر 2014

پاکستان کی معروف وکیل اور انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن عاصمہ جہانگیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ انہیں متبادل نوبل انعام دینا دراصل پاکستان بھر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف ہے۔

https://p.dw.com/p/1DLcT
تصویر: Mukhtar Khan/AP/dapd

عاصمہ جہانگیر پہلی پاکستانی شخصیت ہیں، جنہیں اس معتبر انعام سے نوازا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وہ اس ایوارڈ کو انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر دیکھتی ہیں کیونکہ یہ پاکستان میں سرگرم ان تمام انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان کی خدمات کا اعتراف ہے، جو انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو: یہ انعام انفرادی سطح پر آپ کے لیے اور بحیثیت مجموعی پاکستان میں کام کرنے انسانی حقوق کے کارکنان کے لیے کتنا اہم ہے؟

Muhammad Zia ul-Haq
پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل ضیا الحقتصویر: AP

عاصمہ جہانگیر: یہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس سے دنیا کو معلوم ہو گا کہ پاکستان میں سب کچھ ہی منفی نہیں بلکہ وہاں ایسے لوگ موجود ہیں، جو ایک عرصے سے ظلم کے خلاف مسلسل جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ انعام اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ پاکستان نے اپنی حالیہ تاریخ میں بہت کچھ حاصل کیا ہے اور ہمیں ایسے بہت سے لوگوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جن کی کوششوں سے جمہوریت اور قانون کا بول بالا ہوا ہے۔

ڈی ڈبلیو: انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آپ اور دیگر کارکنان کو مشکلات کا سامنا بھی ہے؟

عاصمہ جہانگیر: پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان کو ہمیشہ ہی مشکل حالات کا سامنا رہا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں لوگ لسانی اور نسلی حقوق کے لیے لڑے، ان میں وہ لوگ بھی تھے جو بنگلہ دیش کی تحریک اور صوبہ بلوچستان کے لیے فعال تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان نسلی اقلتیوں کو اسٹیبلشمنٹ نے کچل دیا تھا۔ پھر 80 کی دہائی میں ہم نے دیکھا کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں مذہب کو سیاست کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ہمیں فوج پر تنقید کی اجازت نہیں تھی کیونکہ اسے پاکستان اور اسلام مخالف سمجھا جاتا تھا۔

اس دور میں پاکستان اور بھارت کے انسانی حقوق کے کارکنان کے مابین ملاقات ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، جب ہم نے بھارت جا کر وہاں کے لوگوں کے ساتھ براہ راست رابطہ کاری شروع کی تو ہمیں معلوم تھا کہ پاکستان میں ہمیں اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ آج تک ہمیں اپنے ملک کے لیے وفادار نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن ہم نے ان رکاوٹوں کو عبور کیا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔

ڈی ڈبلیو: ایک خاتون ہوتے ہوئے مردوں کی حاکمیت والے معاشرے میں انسانی حقوق کی مہم میں نمایاں کردار ادا کرنے میں کیا مشکلات حائل ہیں؟

عاصمہ جہانگیر: معاشرتی اقدار کے حوالے سے مشکلات ہیں اور یہ صرف خواتین کے مسائل کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ جب آپ بچوں کی جبری مشقت کی بات کرتے ہیں تو بھی لوگ سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمیں نتائج سے بیگانہ ہو کر صرف سچ بولنا چاہیے۔ مجھے جیل بھی جانا پڑا اور گھر پر نظر بند بھی کیا گیا لیکن ان اقدامات نے مجھے مزید سخت جان بنا دیا۔

بطور وکیل کئی مرتبہ مجھے اقلیتوں اور خواتین کے مسائل سے متعلق مشکل اور حساس مقدمے بھی لڑنے پڑے۔ اس دوران مجھے مسلسل دھمکیاں بھی ملتی رہیں۔ میں یہ بھی کہوں کی کہ کئی مرتبہ یہ دھمکیاں ڈرا دینے والی ہوتی تھیں۔ لیکن مجھے اپنا کام جاری رکھنا تھا۔

ڈی ڈبلیو: ماضی کے مقابلے میں اب پاکستان میں سول سوسائٹی پھیل گئی ہے اور میڈیا بھی قدرے آزاد ہو گیا ہے۔ کیا اب انسانی حقوق کے لیے کام کرنا آسان ہوا ہے؟

عاصمہ جہانگیر: جی! عوام باشعور اور سیاستدان انسانی حقوق کے حوالے سے زیادہ حساس ہو گئے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جب جمہوری نظام ہوتا ہے تو ہماری آواز مضبوط ہو جاتی ہے۔ ملک میں آزادی اظہار کی صورتحال میں بھی بہتری پیدا ہوئی ہے۔ لیکن اب بھی مسائل ہیں یعنی کوئی مذہب کے نام پر ہونے والے ظلم یا فوج کی طرف سے ڈالے جانے والے دباؤ کے بارے میں بات نہیں کر سکتا۔ ہم میں سے کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں لیکن اس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

Pakistan Karachi Literatur Festival 2013
’یہ ایوارڈ صرف میری خدمات کا اعتراف نہیں ہے بلکہ یہ ان پاکستانیوں کے لیے خراج تحسین کی علامت ہے‘ عاصمہ جہانگیرتصویر: DW

2012ء میں ملکی ایجنسیوں نے مجھے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن خوش قسمتی سے یہ بات کھل گئی۔ بعد ازاں یہ حقیقت ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے عام کی جانے والی خفیہ معلومات سے ظاہر بھی ہوئی۔

ڈی ڈبلیو: کیا اس انعام سے پاکستانی انسانی حقوق کے کارکنان اس حوالے سے چلنے والی عالمی مہموں میں شامل ہو سکیں گے۔

عاصمہ جہانگیر: یہ ایوارڈ صرف میری خدمات کا اعتراف نہیں ہے بلکہ یہ ان پاکستانیوں کے لیے خراج تحسین کی علامت ہے، جو ملک میں انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کی خاطر بے بہا کوششیں اور محنت کر رہے ہیں۔ یہ ایوارڈ پاکستان کے محروم طبقے کے لیے بھی ہے اور ایسے لوگوں کے لیے بھی، جو انسانی حقوق کی پامالیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ پاکستان گزشتہ چار دہائیوں کے دوران بہت زیادہ تبدیل ہوا ہے لیکن ابھی بھی ایک بڑی تبدیلی ممکن ہے۔

عاصمہ جہانگیر کو سویڈن کے انسانی حقوق کا ’دی رائٹ لائیولی ہُڈ ایوارڈ‘ دینے جانے کا اعلان چوبیس ستمبر کو کیا گیا تھا۔ متبادل نوبل انعام کے نام سے بھی پہچانے جانے والا یہ معتبر انعام وہ یکم دسمبر کو اسٹاک ہولم میں منعقد کی جانے والی ایک خصوصی تقریب میں وصول کریں گے۔ اس انعام کے لیے پانچ شخصیات کو منتخب کیا گیا ہے، جن میں امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن بھی شامل ہیں۔