1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحولیات کی دنیا سے، تازہ بہ تازہ

17 اپریل 2013

برطانیہ میں سن 2015 سے سرکسوں میں جنگلی جانوروں کے استعمال پر پابندی ہو گی۔ امریکا اور چین نے موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کر دیا ہے اور بجلی سے محروم انسانوں کی نصف تعداد ایشیا سے تعلق رکھتی ہے۔

https://p.dw.com/p/18HF6
تصویر: picture-alliance/dpa

سرکسوں میں جنگلی جانور دکھانے پر پابندی

برطانیہ میں ایک عرصے سے جانوروں کے حقوق کے لیے کوشاں تنظیمیں اور حلقے یہ تحریک چلا رہے تھے کہ لوگوں کو محظوظ کرنے کے لیے سرکسوں میں جنگلی جانوروں کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے۔ رواں ہفتے لندن حکومت نے اعلان کیا ہے کہ سن 2015ء سے شہروں شہروں گھومنے پھرنے والی سرکسوں پر اپنے شوز میں جنگلی جانوروں کو استعمال کرنا اور اُن سے کرتب کروانا ممنوع ہو گا۔ اس سلسلے میں مسودہء قانون پارلیمنٹ میں متعارف کرواتے ہوئے جونیئر وزیر ماحول رابرٹ پونسونبی نے کہا کہ اس عرصے میں سرکسوں کے انتظامی ادارے اپنے شوز کے لیے متبادل انتظام کر سکیں گے اور جانوروں کے لیے مناسب رہائش تلاش کر سکیں گے۔

دنیا بھر میں بجلی سے محروم انسانوں کی نصف تعداد ایشیا سے تعلق رکھتی ہے (تصویر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف سراپا احتجاج پاکستانی شہری)
دنیا بھر میں بجلی سے محروم انسانوں کی نصف تعداد ایشیا سے تعلق رکھتی ہے (تصویر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف سراپا احتجاج پاکستانی شہری)تصویر: dpa

موسمیاتی تبدیلیاں: امریکی چینی ورکنگ گروپ

امریکا اور چین دنیا کی دو بڑی معیشتیں ہونے کے ساتھ ساتھ فضا میں سب سے زیادہ مقدار میں ضرر رساں گیسیں خارج کرنے والے ممالک بھی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے حالیہ دورہء بیجنگ کے موقع پر دونوں ملکوں نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے موضوع پر ایک مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان بڑے اختلافات موجود ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ چونکہ ترقی پذیر ممالک کا سبز مکانی گیسوں کا فی کس اخراج بہت کم ہے، اس لیے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اُن پر امیر صنعتی ملکوں جتنا بوجھ نہ ڈالا جائے۔

بجلی مہنگی، توانائی کے استعمال اور کاربن گیسوں میں کمی

ایشیائی ترقیاتی بینک نے حال ہی میں اپنی سالانہ جائزہ رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا ہے کہ ایشیائی ممالک کو توانائی کے شعبے میں صارفین کو دی جانے والی سبسڈیز ختم کرتے ہوئے متبادل توانائیوں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صارفین کو دی جانے والی سبسڈیز مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے برابر بنتی ہیں اور اگر دنیا بھر کی حکومتیں ان سرکاری اعانتوں کو ختم کر دیں تو 2035ء تک اندازاً 2.6 ارب ٹن کم کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج ہو گی۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اتنے واضح ہیں کہ اب امریکا اور چین نے مشترکہ طور پر ان سے نمٹنے کے طریقوں پر غور شروع کر دیا ہے
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اتنے واضح ہیں کہ اب امریکا اور چین نے مشترکہ طور پر ان سے نمٹنے کے طریقوں پر غور شروع کر دیا ہےتصویر: Fotolia/Daniel Loretto

ایشیائی ترقیاتی بینک کی اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں آج بھی جو انسان بجلی کی سہولت سے محروم ہیں، اُن میں سے تقریباً نصف کا تعلق ایشیا سے ہے۔ پوری دنیا میں 2.8 ارب انسان آج بھی توانائی کے حصول کے لیے ایندھن کے روایتی ذرائع پر انحصار کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں نہ صرف اُن کی اپنی صحت تباہ ہوتی ہے بلکہ ماحول کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے برعکس توانائی کے متبادل ذرائع مثلاً ہوا، سورج یا بائیو ٹیکنالوجی صاف ستھرے ذرائع ہیں، جن کے انسان اور ماحول کے لیے نقصانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

یورپی یونین: 2030ء کے ماحولیاتی اہداف پر بھی غور شروع

یورپی یونین نے 2020ء تک ماحولیات اور توانائی سے متعلق تین بڑے اہداف مقرر کر رکھے ہیں یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 20 فیصد کمی، قابل تجدید ذرائع سے 20 فیصد توانائی کا حصول اور توانائی کے استعمال میں 20 فیصد کمی۔ یہ اہداف بڑی حد حاصل بھی کیے جا چکے ہیں اور اسی لیے یورپی کمیشن نے ابھی سے 2030ء تک کے اہداف پر بھی غور شروع کردیا ہے۔ تب تک توانائی کی بچت یا اس کے استعمال میں 30 فیصد سے زائد کمی پر غور کیا جا رہا ہے۔

سائسدانوں کا کہنا ہے کہ زمینی درجہء حرارت میں اضاافے اور قطبین پر برف پگھلنے کی رفتار کہیں زیادہ تیز ہو گئی ہے
سائسدانوں کا کہنا ہے کہ زمینی درجہء حرارت میں اضاافے اور قطبین پر برف پگھلنے کی رفتار کہیں زیادہ تیز ہو گئی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

2030ء تک کے اہداف متعارف کرواتے ہوئے یورپی یونین کی ماحولیات کی کمشنر Connie Hedegaard نے کہا، یورپ کو اب اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ ماحول پسند پالیسیوں کا چیمپئن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک عرصے تک موسمیاتی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے ملک چین نے حال ہی میں جو پنچ سالہ منصوبہ بنایا ہے، اُس میں یورپی یونین کے اہداف سے ملتے جلتے مقاصد طے کیے گئے ہیں۔

زمینی درجہء حرارت میں اضافے کی رفتار زیادہ تیز

موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں 2006ء کے اہم مطالعاتی جائزے کے مصنف نکولس اسٹرن (Nicholas Stern) نے خبردار کیا ہے کہ زمینی درجہء حرارت میں اضافہ اب تک کے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے تاہم اُنہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ سیاسی شعبہ اِس تباہی کے آگے بند باندھنے کے لیے اقدامات کرے گا۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے Stern نے، جو ورلڈ بینک کے چیف اکانومسٹ بھی رہ چکے ہیں، کہا ہے کہ سبز مکانی گیسوں کا اخراج اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سات سال پہلے کی گئی پیشین گوئیوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔

(aa/zb,aba,ai(agencies