1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیما ماحولیاتی کانفرنس پر اختلافات کے سائے

عاطف توقير13 دسمبر 2014

پیرو کے دارالحکومت لیما میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس میں شریک ممالک نے کانفرنس کی معیاد میں تو وسعت دے دی، تاہم باہمی اختلافات کے سائے اب تک کسی اہم پیش رفت کی راہ میں بڑی رکاوٹ دکھائی دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1E3YJ
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Aguilar

اس کانفرنس میں شریک ممالک ایک مسودے کی تیاری پر اختلافات کا شکار ہیں کہ کس طرح دنیا بھر کے ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کے انسداد کے لیے اپنی اپنی جانب سے ٹھوس اقدامات کی جانب بڑھیں، جو اگلے برس پیرس میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس میں پیش کیے جا سکیں۔

ایسے مواقع کم ہی آتے ہیں کہ جب ماحولیات کے موضوع پر اقوام متحدہ کی سالانہ کانفرنسیں اپنے طے شدہ وقت پر ختم ہوں۔ گزشتہ قريب دو ہفتوں سے جاری لیما کانفرنس کے بارے میں بھی ایسے ہی خدشات شروع دن سے سامنے آ رہے تھے اور ہوا بھی یہی۔ جمعے کا دن اس کانفرنس کے لیے طے کردہ دور کا آخری روز تھا، تاہم باہمی اختلافات کی وجہ سے اسے آگے بڑھانا پڑا۔

کانفرنس ميں جان کيری نے اقوام پر زور ديا کہ وہ اختلافات دور کريں
کانفرنس ميں جان کيری نے اقوام پر زور ديا کہ وہ اختلافات دور کريںتصویر: Getty Images/C. Bouroncle

چینی وفد میں شامل زانگ جیوتیان نے جمعے کے روز کہا، ’آج یہ کانفرنس ختم نہیں ہو گی۔ اب بھی متعدد امور ہیں، جب پر بحث کی جانا ہے۔‘

یہ بات اہم ہے کہ لیما کانفرنس میں شامل 190 ممالک کے وفود کے درمیان اختلافات کا محور نکتہ یہ بھی ہے کہ حکومتیں کون کون سی معلومات فراہم کریں گی، جو اگلے برس ماحولیاتی تبدیلیوں کے انسداد سے متعلق عالمی معاہدے میں شامل کی جائیں گی۔ اس سلسلے میں اگلے برس پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں کسی بین الاقوامی معاہدے تک پہنچنے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کا اصرار ہے کہ اس معاہدے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت حدت کو کرہء ہوائی میں قید کر دینے والی ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کی کوششوں پر توجہ مرکوز کی جانا چاہیے۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں غریب ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کے وعدے بھی شامل ہونا چاہیئں۔

دوسری جانب کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے اعتبار سے سرفہرست چین اور دیگر ترقی پزیر ممالک ان منصوبوں کی مخالفت کر رہے ہیں، جن میں ان منصوبوں پر پیرس میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں تجزیہ اور موازنہ کیا جانا ہے۔ ترقی پزیر ممالک اس سلسلے میں پیش کیے جانے والے منصوبوں کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔

بحرالکاہل میں واقع مارشل جزائر کے وزیرخارجہ ٹونی ڈے بروم نے کہا، ’میں حیران ہوں کہ ہمارے کچھ ساتھی اس سلسلے میں امید کی روشنی تک پہنچنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔‘

یہ بات اہم ہے کہ سمندروں کی سطح میں اضافے کی وجہ سے بحرالکاہل میں واقع اس قوم کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی سرگرمیاں زمینی درجہ حرات میں اضافے کا اہم ترین محرک ہیں، جس میں پیٹرولیم مصنوعات، کوئلے اور قدرتی گیس کا استعمال سرفہرست ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق تاریخی طور پر مغربی اقوام ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں سب سے آگے رہی ہیں، تاہم اب چین اور بھارت سمیت ترقی پزیر ممالک صنعتی ترقی کی وجہ سے ان گیسوں کے اخراج میں پیش پیش ہیں۔