1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافریقہ

لیبیا دوبارہ سیاسی انتشار کی دلدل میں اُترتا ہوا

18 فروری 2022

ایک سال قبل ایسا دکھائی دیتا تھا کہ لیبیا میں جمہوری عمل کو استحکام مل سکتا ہے۔ اب یہ ملک پھر سے انتشار اور تقسیم کا شکار ہو گیا ہے۔ اس ملک میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہے۔

https://p.dw.com/p/47FDI
Libyen Unruhen Proteste
تصویر: Hakeam el-Yamany/AP Photo/Picture-alliance

گزشتہ برسوں میں شمالی افریقی ملک لیبیا کے دوبارہ اتحاد کی جانب کچھ قدم ضرور اٹھائے گئے لیکن اب اس عمل میں مزید پیش رفت مشکل دکھائی دیتی ہے بلکہ جو قدم اٹھائے گئے تھے وہ بھی انتشار و افراتفری کی خاک میں دھندلا گئے ہیں۔ انہی اقدام کے تحت گزشتہ برس چوبیس دسمبر کو صدارتی انتخابات منعقد کرانے کی کوشش کی گئی، جو ضائع ہو گئی۔

لیبیا: پارلیمانی چیلنج کے باوجود اقوام متحدہ عبوری وزیر اعظم کا حامی

اسی صدراتی الیکشن میں لیبیا کے سابق آمر معمر القذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی نے بھی شرکت کا اعلان کیا تھا لیکن ان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے تھے۔ بعض سیاسی مبصرین کے مطابق اس شمالی افریقی ملک میں اتحاد و اتفاق کی کوششوں کے تحلیل ہونے میں یہ بھی ایک قدم کسی حد تک قرار دیا جا سکتا ہے۔

Libyen | Fathi Bashagha kandidiert als Präsident
سابقہ جنگی پائلٹ اور بزنس مین فتحی بشاغا کو اقوام متحدہ کی قائم کردہ انتظامیہ کی حمایت حاصل رہی تھیتصویر: Hazem Turkia/AA/picture alliance

صدارتی الیکشن

بظاہر چوبیس دسمبر کے صدارتی انتخابی عمل کو موجودہ عبوری حکومت کا متبادل قرار دیا گیا تھا۔ الیکشن کا مقصد اصل میں عبوری حکومت کے وزیر اعظم عبدالحمید محمد الدبیبہ کی ذمہ داریوں کو منتقل کرنا تھا۔ لیکن انتخابی عمل مکمل نہیں ہو سکا۔ الدبیبہ کو وزارتِ عظمیٰ لیبیا پولیٹیکل ڈائیلاگ فورم نے تفویض کی تھی۔

دوسری جانب پچھلے ہی سال دس فروری کو لیبیا کی پارلیمنٹ نے سابق وزیر داخلہ فتحی باشاغا کو حکومت تشکیل دینے کا فریضہ سونپا اور اسی وقت اگلے چودہ ماہ کے اندر الیکشن کرانے کا اعلان بھی کیا گیا۔ الدبیبہ نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب چھوڑنے سے انکار کر دیا اور الیکشن تک منصب پر براجمان رہنے کا عندیہ دیا۔ دو وزرائے اعظم نے بھی اتحاد کے عمل کو زوال کا شکار کیا۔

لیبیا کے وزیر اعظم پر قاتلانہ حملہ، بال بال بچے

متوازی حکومتیں اور انتشار

لیبیا کے عوام اور اس ملک پر نگاہ رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں دو متوازی حکومتوں کا ایک ساتھ قیام حقیقت میں انتشار اور عدم استحکام کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس سیاسی بےچینی کی وجہ سے مزید داخلی مسلح سرگرمیوں کے بڑھنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

لیبیا سن 2011  سے عرب دنیا میں جمہوری تحریکوں کے سلسلے 'عرب اسپرنگ‘ کے وقت سے عدم اتفاق و اتحاد اور متحارب قبائلی حلقوں کی دشمنی اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔

Ägypten Kairo | Libyscher Premierminister Abdul Hamid Mohammed Dbeibah
لیبیا کی عبوری حکومت کے وزیر اعظم عبد الحمید الدبیبہتصویر: Hazem Ahmed/AP Photo/picture alliance

اس وقت یہ ملک مشرق و مغرب میں تقسیم ہے اور ان حکومتوں کو مسلح ملیشیا گروپوں کی عملی حمایت حاصل ہے۔

ان کے غیر ملکی مددگار ممالک بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے کئی ایلچیوں نے گھمبیر صورت حال کی شدت دیکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑنے میں عافیت سمجھی کیونکہ متحارب گروپ ہتھیار پھینکنے پر راضی نہیں ہوئے۔

سیف الاسلام قذافی کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد

قانونی اور غیر قانونی کے درمیان جد و جہد

الدبیبہ اور باشاغا دو طرفہ تعاون کے حوالے سے صورت حال کو بہتر کر سکتے ہیں لیکن ان کا بیانیہ 'قانونی اور غیر قانونی‘  کے اردگرد گھوم رہا ہے۔

برلن میں قائم تھنک ٹینک ایس ڈبلیو پی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے لیبیائی امور کے ماہر وولفرام لاخر کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کی کوشش طویل اور مکمل حکمرانی کا حصول ہے۔ دونوں فریقوں کی خواہش ہے کہ ایسی حکومت ملے، جس میں احتساب کو کوئی جگہ میسر نہ ہو۔  بعض مبصرین کے مطابق یہ دونوں وزرائے اعظم ایک اور مطلق العنانیت پر مبنی حکومت کی خواہش رکھتے ہیں۔

الدبیبہ کا تعلق لیبیا کے مغربی شہر مصراتہ سے ہے اور انہیں امریکی حمایت یافتہ عسکری گروپوں کی مدد حاصل ہے۔ اس میں جنگی سردار خلیفہ حفتر نمایاں ہیں۔ الدبیبہ بھی صدرارتی الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش رکھتے تھے۔

Libyen | Khalifa Haftar
جنگی سردار خلیفہ حفتر بھی لیبیا میں ایک اہم عسکری و سیاسی قوت کے حامل ہیںتصویر: LIBYA ALHADATH TV/AFP/Getty Images

سابقہ جنگی پائلٹ اور بزنس مین بشاغا کو اقوام متحدہ کی قائم کردہ انتظامیہ کی حمایت حاصل رہی تھی۔ ان کی سرگرمیوں کا مرکز طرابلس ہے اور عبوری حکومت بھی اسی شہر میں قائم ہے۔ انہیں ترکی، فرانس، مصر اور روس کی حمایت حاصل ہے۔ کسی حد تک امریکی حکومت بھی اب باشاغا کی حمایت میں ہے۔

لیبیا: جنگی سردار خلیفہ حفتر کا صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان

یہ امر اہم ہے کہ باشاغا اقوام متحدہ کی حمایت سے محروم ہو چکے ہیں اور عبد الحمید الدبیبہ عبوری حکومت کی قیادت حاصل کر چکے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ انہی دونوں شخصیات کے گرد لیبیا کا موجودہ داخلی عدم استحکام پھیلا ہوا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ یہ اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ملکی استحکام کی راہ ہموار کریں۔

ع ح / ا ا (اے پی)