1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لٹویا یورو زون کا رکن بن گیا

ندیم گِل1 جنوری 2014

لٹویا یورو زون کا اٹھارہواں رکن ملک بن گیا ہے۔ اکتس دسمبر کو نصف شب جب دنیا نئے سال کا جشن منا رہی تھی، اسی وقت لٹویا نے یورو کو اپنی کرنسی کے طور پر اخیتار کر لیا۔

https://p.dw.com/p/1Ajrk
تصویر: picture-alliance/dpa

لٹویا کے قائم مقام وزير اعظم والدیس ڈوم برووسکس نے دارالحکومت ریگا میں ایک تقریب کے دوران ایک بینک کی مشین سے یورو کا پہلا نوٹ نکالا۔ لٹویا میں ٹیلی وژن پر مختلف یورپی رہنماؤں کے پیغامات بھی نشر کیے گئے جنہوں نے یورو زون میں شمولیت پر ریگا حکومت کا خیر مقدم کیا۔

ڈوم برووسکس کا کہنا تھا: ’’دنیا کی دوسری بڑی کرنسی اختیار کرنا لٹویا کی اقتصادی ترقی کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔‘‘

لٹویا 2004ء میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور یورپی یونین کا رکن بنا تھا۔ یوں یورو زون کی رکنیت اس کی سیاسی قیادت کے لیے ایک فطری پیش رفت ہے جس کے نتیجے میں وہ مغربی یورپ کے مزید قریب آ گيا ہے۔ ہمسایہ ملکوں ایسٹونیا اور ليتھوینیا کے ساتھ 1990ء کے اوائل میں سابق سوویت یونین سے علیحدہ ہونے کے بعد سے ہی لٹویا یورپی یونین کے ساتھ انضمام کا خواہاں تھا۔

Lettland Valdis Dombrovskis tritt zurück
لٹویا کے قائم مقام وزير اعظم والدیس ڈوم برووسکستصویر: Reuters

لٹویا کی یورو زون کی رکنیت کے بارے میں یورپی یونین کے کمشنر برائے اقتصادی و مالیاتی امور اولی رین کا کہنا ہے: ’’یورو میں شمولیت سے لٹویا ہمارے براعظم کے اقتصادی اور سیاسی مرکز کا مکمل طور پر حصہ بن گیا ہے اور ہم سب کے لیے یہ بہت ہی خوشی کا موقع ہے جس کا جشن منایا جانا چاہیے۔‘‘

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق لٹویا میں متعدد حلقے یورو کے بارے میں تحفظات بھی رکھتے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق تقریباﹰ نصف آبادی یورو کرنسی اختیار کرنے کے خلاف رہی ہے۔ تاہم 2013ء کے دوران اس کے لیے حمایت میں اضافہ بھی ہوا ہے۔

بعض لوگ لٹویا کی اپنی کرنسی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے جسے وہ اپنی آزادی کی اہم علامت خیال کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران یورو زون میں سامنے والے اقتصادی بحران پر بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ اس بات پر بھی نالاں ہے کہ ان کی حکومت نے یورو زون کی رکنیت کی سخت شرائط پوری کرنے کے لیے سخت بچتی اقدامات متعارف کروائے۔

اس کے برعکس اے پی کے مطابق لٹویا کی سیاسی قیادت تمام تر اقتصادی مسائل کے باوجود یورو زون کو مستحکم خیال کرتی ہے۔

خیال رہے کہ ایسٹونیا 2011ء میں یورو زون کا رکن بن گیا تھا جب کہ ليتھوینیا آئندہ برس رکن بن سکتا ہے۔ اس کے بعد اقتصادی، سیاسی اور عسکری لحاظ سے مغرب کے قریب آنے کے لیے بالقان ممالک کی کوششیں انجام کو پہنچ جائیں گی۔