1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور میں دوسرا جرمن فلم فییسٹیول

26 فروری 2012

لاہور میں جرمنی کی فلموں کا تین روزہ میلہ اتوار کی شام ختم ہو گیا۔ نیشنل کالج آف آرٹس میں ہونے والے اس میلے کا اہتمام جرمنی کے مقامی ثقافتی مرکز آنے ماری شمل ہاؤس نے گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے تعاون سے کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/14AQo
تصویر: Burkert Bares development und ophir film GmbH – Vo

لاہور میں ہونے والے جرمن فلم فیسٹیول میں پاکستانی فلم سازوں، فلمی ہدایت کاروں اور فلموں کے شائیقین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس میلے میں جرمنی کی کئی فلمیں انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ دکھائی گئیں۔ میلے کے پہلے روز ’’دی مین ہو جمپڈ کارز‘‘ یعنی کاریں پھلانگنے والا آدمی دکھائی گئی، جسے تماشائیوں نے بہت پسند کیا۔ اس فلم میں دماغی ہسپتال میں زیر علاج ایک ایسے نوجوان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو ہسپتال سے بھاگ جاتا ہے اور اپنے دوست کے والد کی صحت یابی کے لیے پیدل چلنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کی اس کی اس مشقت کے نتیجے میں ہارٹ اٹیک کے شکار مریض کو توانائی اور صحت ملے گی۔ ایک گھریلو عورت اور ایک ڈاکٹر خاتون اور بعد ازاں اس کی تلاش میں سرگرداں ایک پولیس والا بھی اس کا ہمسفر بن جاتا ہے۔


عمران احمد نامی ایک نوجوان پاکستانی فلم میکر کا کہنا ہے کہ اس جرمن فلم میں مشکل پیغام کو جس سادہ انداز میں پیش کیا گیا ہے اسے داد دیے بغیر کو ئی نہیں رہ سکا۔ عمران کے بقول اس فلم سے انہیں یہ پیغام بھی ملا ہے کہ ایک اچھی فلم کی تخلیق کے لیے سرمایے سے زیادہ دماغ، ذہانت اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس میلے میں دکھائی جانے والی دیگر فلموں میں دی ڈے آئی واز ناٹ بورن، آوٹ آف کمپیٹیشن، اور اباوو اس اونلی اسکائی وغیرہ بھی شامل تھیں۔

اس میلے کے دوران فلموں کے لیے اخلاقیات کی ضرورت و اہمییت کے عنوان پر ایک مذاکرے کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے معروف اداکار اور رفیع پیر تھیئٹر سے تعلق رکھنے والے عثمان پیرزادہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سینما آوارہ گرد لڑکوں کی شب بسری کا نہیں بلکہ فیملی کی تفریح کا ذریعہ ہے۔ ان کے مطابق جب سے پاکستانی فملوں میں اخلاقیات کو نظرانداز کیا گیا ہے تب سے لوگوں نے سینما گھروں میں آنا چھوڑ دیا ہے۔

مذاکرے میں شریک مقررین کے مطابق دنیا کے مختلف ملکوں میں کہانیوں کے بیان کرنے کے نئے انداز سامنے آ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلموں کے لیے اپنے اپنے انداز میں اخلاقی معیارات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اس طرح فلموں کے لیے گلوبل معیارات بھی موجود ہیں۔ ان کے بقول معیاری پروڈکشن کے لیے ان پروفیشنل معیارات کی پابندی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

جرمنی کی فلموں کے اس میلے کا آغاز اکتوبر دو ہزار دس میں کیا گیا تھا۔
جرمنی کی فلموں کے اس میلے کا آغاز اکتوبر دو ہزار دس میں کیا گیا تھا۔تصویر: DW



جرمنی سے آئے ہوئے ایک فلم ساز نک بیکر نے بتایا کہ دنیا میں انسانوں کو متاثر کرنے والی سچی کہانیوں پر مبنی فلمیں بنانے کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔

این سی اے میں فلم اینڈ ٹیلی وژن ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ شیریں پاشا نے بتایا کہ فلم اکیسیوں صدی کا سب سے اہم ذریعہ ابلاغ ہے اور اس ذریعے کو دنیا کے لوگوں کو قریب لانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول جرمن فلم فیسٹیول سے پاکستانیوں کو ترقی یافتہ ملکوں کی فلموں کے کام اور معیار کو جاننے کا موقع ملا ہے۔
جرمنی کے مقامی ثقافتی مرکز کی سربراہ نادیہ ریاض کا کہنا تھا کہ اس میلے کے انعقاد کا ایک مقصد پاکستانی فلمی شائقین کو معیاری تفریح فراہم کرنا اور انہیں اچھی فلموں سے روشناس کروانا بھی تھا۔

لاہور میں ہونے والے جرمن فلم فیسٹیول میں پاکستانی فلم سازوں، فلمی ہدایت کاروں اور فلموں کے شائیقین کی بڑی تعداد نے شرکت کی
لاہور میں ہونے والے جرمن فلم فیسٹیول میں پاکستانی فلم سازوں، فلمی ہدایت کاروں اور فلموں کے شائیقین کی بڑی تعداد نے شرکت کیتصویر: DW

جرمنی کی فلموں کے اس میلے کا آغاز اکتوبر دو ہزار دس میں کیا گیا تھا۔ اس طرح اس برس ہونے والا جرمن فلموں کا یہ دوسرا میلہ تھا۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: افسر اعوان