1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قتیل شفائی: ہری پور کا بے مثل نغمہ گر

امجد علی11 جولائی 2014

جولائی کا مہینہ پاکستانی فلموں کے لیے لازوال گیت تخلیق کرنے والے نامور شاعر قتیل شفائی کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے کی تکلیف دہ یادیں لے کر آتا ہے۔ ان کا انتقال گیارہ جولائی 2001ء کو 82 برس کی عمر میں ہوا تھا۔

https://p.dw.com/p/196vZ
تصویر: privat

قتیل شفائی کا اصل نام اورنگ زیب خان تھا۔ اُن کا تعلق ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تھا، جہاں اُنہوں نے چودہ دسمبر 1919ء کو جنم لیا۔ اپنے علاقے اور شاعری سے ابتدائی تعارف کا ذکر کرتے ہوئے اپنے انتقال سے کچھ ہی پہلے ڈوئچے ویلے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا:’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘

قتیل شفائی نے گیت نگاری کا آغاز پاکستانی فلموں سے کیا تاہم عمر کے آخری برسوں میں کئی بھارتی فلموں کے لیے بھی گیت لکھے، جو بہت مقبول ہوئے، جیسے ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو‘ اور ’وہ تیرا نام تھا‘
قتیل شفائی نے گیت نگاری کا آغاز پاکستانی فلموں سے کیا تاہم عمر کے آخری برسوں میں کئی بھارتی فلموں کے لیے بھی گیت لکھے، جو بہت مقبول ہوئے، جیسے ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو‘ اور ’وہ تیرا نام تھا‘تصویر: Getty Images/AFP

اس سوال کے جواب میں کہ اُنہیں اپنے اندر موجود شاعر کا احساس کس دور میں ہوا، قتیل شفائی نے بتایا تھا:’’مَیں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں مَیں سیکرٹری چُنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ اُس سے مجھے اُس شاعر کا پتہ چلا، جو میرے اندر ہے اور مَیں نے اُس کی پرورش کی۔ قابل فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ مَیں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہیں اور فلمی گیت نگاری محض ایک ذریعہ روزگار ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہ وہ فلموں میں معیاری شاعری متعارف کروانے کا چیلنج لے کر اس میدان میں آئے۔ اپنے انٹرویو میں اس حوالے سے اُنہوں نے کہا تھا:’’فلم میں جب مَیں آیا تو مَیں تو اُس وقت صاحب دیوان تھا۔ فلم تو بہت بعد کی چیز ہے۔ فلم کی دنیا میں آنے کے بعد سے اب تک میری بیس تصانیف سامنے آ چکی ہیں۔ فلم کا تو یہ ہے کہ کلرکی نہ کی، فلم کا کام کر لیا لیکن وہ بھی مشن کے طور پہ۔‘‘

قتیل شفائی نے فلموں کے لیے اڈہائی ہزار سے زیادہ گیت لکھے جبکہ اُن کی شاعری کے بیس سے زیادہ مجموعے زیور طبع سے آراستہ ہوئے
قتیل شفائی نے فلموں کے لیے اڈہائی ہزار سے زیادہ گیت لکھے جبکہ اُن کی شاعری کے بیس سے زیادہ مجموعے زیور طبع سے آراستہ ہوئےتصویر: privat

قتیل شفائی کا مزید کہنا تھا:’’وہ زمانہ ایسا تھا کہ سوائے آرزو لکھنوی کے … اور وہ بھی ہندی شاعری کرتے تھے، اردو نہیں۔ میرا خیال تھا کہ اردو میں گیت دیا جائے۔ مَیں نے دیکھا کہ اردو میں حفیظ جالندھری گیت کے بانی تھے اور فلم میں تنویر نقوی تھے، جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے خدمت کی، اردو میں گیت شامل کر کے۔ تو مَیں ایک مشن لے کر گیا تھا۔ باقی فلم نے مجھے کچھ نہیں دیا، مَیں نے فلم کو دیا ہے کہ مَیں پورا لٹریچر اُس میں لے کر گیا۔‘‘

قتیل شفائی کے مطابق فلم میں رہتے ہوئے اُنہوں نے زیادہ وقت ادب کو دیا:’’ورنہ آپ مجروح سلطان پوری کو لے لیجیے، شکیل بدایونی کو لے لیجیے، یہ جب فلم میں گئے تو اُس کے بعد ادب کی طرف بالکل توجہ نہیں دی، پیسہ سامنے تھا۔ سوائے ساحر لدھیانوی کے کہ وہ ’پرچھائیاں‘ کے بعد اور اپنے مجموعے بھی سامنے لائے۔ تو میرے دو مقاصد تھے، ایک تو اپنا مشن پورا کیا اور دوسرے اسے ذریعہء معاش بنایا۔‘‘

قتیل شفائی نے فلموں کے لیے گیت نگاری کا آغاز پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ سے کیا جبکہ اپنی عمر کے آخری دور میں بہت مرتبہ ممبئی کا بھی سفر کیا اور ’سر‘، ’دیوانہ تیرے نام کا‘، ’بڑے دل والا‘ اور ’پھر تیری کہانی یاد آئی‘ جیسی بہت سی بھارتی فلموں کے لیے بھی عمدہ گیت لکھے۔

اُن کے گیتوں کی مجموعی تعداد ڈھائی ہزار سے زیادہ بنتی ہے، جن میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ کے ساتھ ساتھ ’یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہزادیاں‘ جیسے زبان زدِ خاص و عام گیت بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کئی گیتوں پر اُنہیں خصوصی اعزازات سے نوازا گیا جبکہ 1994ء میں اُنہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی ایوارڈ (تمغہء حسن کارکردگی) سے بھی نوازا گیا۔