1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیصل آباد میں ہلاک ہونے والا مریض ایبولا وائرس سے متاثرہ نہیں تھا، عالمی ادارہ صحت

شکور رحیم، اسلام آباد25 نومبر 2014

پاکستانی وزرات صحت اور عالمی ادارہ صحت نے مشترکہ طور پر تصدیق کی ہے کہ فیصل آباد کے ہسپتال میں ہلاک ہونے والے مریض کو ایبولا کا مرض لاحق نہیں تھا۔

https://p.dw.com/p/1Dsny
تصویر: AP

صوبہ پنجاب کے شہر چنیوٹ سے تعلق رکھنے والا 40 سالہ ذوالفقار ایک ہفتہ قبل افریقی ملک ٹوگو سے پاکستان واپس لوٹا ٹھا۔ اسے شدید بخار کے بعد فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں ڈاکٹروں نے اس کے منہ اور ناک سے خون بہنے پر خطرناک ایبولا وائرس کا شکار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

پاکستان کے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کو آرڈینیشن (این ایچ ایس آر سی) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مشترکہ بیان کے مطابق الائیڈ ہسپتال میں زیر علاج ذوالفقار احمد نامی مریض کی ہلاکت ایبولا کے سبب نہیں بلکہ ڈینگی بخار کی وجہ سے ہوئی۔ بیان کے مطابق ذوالفقار کو ہیپٹائٹس سی کا مرض بھی لاحق تھا۔

دوسری جانب ایبولا وائرس سے بچاؤ کے لیے پاکستان میں نگرانی اور حفاظتی اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ روز اسلام آباد پہنچنے والی عالمی ادارہ صحت کی ٹیم نے پاکستانی وزارت صحت کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔

اپنے ایک ہفتے کے دورے کے دوران یہ ٹیم اسلام آباد، لاہور اور کراچی ایئرپورٹس سمیت دیگر داخلی مقامات کا دورہ کرے گی، جہاں وہ اس خطرناک وائرس سے متاثرہ کسی ممکنہ شخص کی پاکستان آمد پر اس سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے انتظامات کا جائزہ لے گی۔

ایبولا وائرس منتقل ہونے کے ذرائع
ایبولا وائرس منتقل ہونے کے ذرائع

پاکستانی وزارت صحت اور ڈبلیو ایچ او کے ایبولا سے متعلق فوکل پرسن ڈاکٹر سلمان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایبولا کے خطرے سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں: ’’پاکستان میں ہم نے دو ایریاز میں کام کیا ہے۔ ان میں ایئر پورٹس پر نگرانی کو مضبوط کیا ہے اور انفیکشن کنٹرول کے حوالے سے ہم نے ہسپتالوں میں تربیت فراہم کی ہے۔ ہیلتھ ایجوکیشن اور آگاہی کے لیے بھی کام ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ ٹاسک فورس بھی بنی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا مشن آیا ہوا ہے۔ لاہور اور کراچی کا وزٹ کر رہے ہیں تاکہ ایبولا کنٹرول کے حوالے سے صوبوں کی تیاری کا جائزہ لیا جا سکے۔‘‘

خیال رہے کہ عالمی ادارۂ صحت نےایبولا وائرس پھیلنےسے روکنے کے لیے حکومت پاکستان کو ایک ماہ کے اندر اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس حوالے سے اسلام آباد کے بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر بنائے گئے خصوصی کاؤنٹر کے انچارج ڈاکٹر عرفان طاہر کا کہنا ہے کہ وہ ایئر پورٹس پر مخلتف ممالک سے آنے والے مسافروں کی سکینگ کا کام مستعدی سے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدید تھرمو سکینر کے ذریعے مریضوں میں کسی بھی قسم کے بخار کی نشاندہی ہو جاتی ہے: ’’ان میں سے پانچ، چھ لوگ ایسے تھے جو اسکینر ظاہر کر رہا تھا کہ بخار سے ہیں۔ اور یہاں تک کہ ایک دو لوگوں نے آکر ہمیں خود رابطہ کیا ہے کہ ہمیں بخار ہے آپ دیکھیں۔ اس کے بعد ہم انہیں علیحدہ کمروں میں لے جاتے ہیں وہاں ہمارے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز ان کو چیک کرتے ہیں۔ اس میں اہم یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک آدمی کو بخار ہو تو سب سے اہم چیز اس کا سفری ریکارڈ ہوتا ہے۔ اگر وہ ایبولا سے متاثرہ مغربی افریقی ممالکی سیرا لیوان، لائبیریا وغیرہ سے نہیں آرہا تو پھر ہمارے لیے اس کی اہمیت نہیں ہوتی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ فضائی کمپنیوں کو بھی ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ ائیر پورٹ پر ایبولا کی وباء سے متاثر ممالک کا سفر کرنے والے مسافروں کے بارے میں اعلانات کریں گی تاکہ ان مسافروں کا خصوصی طبی معائنہ کیا جا سکے۔ پاکستانی وازرت صحت کے حکام کے مطابق ایبولا سے نمٹنے کے موجودہ انتظامات میں اگر کوئی کمی ہے بھی تو ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کی ٹیم کی مدد سے اسے دور کر لیا جائے گا۔