1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فزکس کا نوبل انعام پیٹر ہگز اور فرانسوا اونگلیر کے نام

افسر اعوان8 اکتوبر 2013

2013ء کے لیے طبیعات کا نوبل انعام بیلجیم کے سائنسدان فرانسوا اونگلیر اور پیٹر ہِگز کو مشترکہ طور پر دیا گیا ہے۔ یہ انعام ان سائنسدانوں کو اس سوال کا جواب تلاش کرنے پر دیا گیا ہے کہ سب اٹامک ذرات کو کمیت کیسے حاصل ہوئی۔

https://p.dw.com/p/19wGG
تصویر: Reuters

ان سائنسدانوں کی طرف سے پیش کردہ خیالی ذرے ہِگز بوسون سے متعلق تھیوری گزشتہ برس اس وقت درست ثابت ہوئی جب یورپی تحقیقی ادارے CERN میں اس طرح کا ذرہ دریافت کر لیا گیا تھا جو ہِگز بوسون سے مماثلت رکھتا ہے۔

فزکس کے نوبل انعام سے متعلق اعلان طے شدہ وقت سے ایک گھنٹہ بعد کیا گیا۔ یہ انتہائی غیر معمولی بات ہے تاہم جنیوا میں قائم رائل سویڈش اکیڈمی کی طرف سے اس کی فوری طور پر کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ اکیڈمی کی طرف سے جیتنے والوں کے نام کا فیصلہ اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

اونگلیر اور ہِگز نے 1960ء کے عشرے میں اس سوال کا جواب دینے کے لیے ایک خیالی ذرے سے متعلق تھیوری پیش کی تھی کہ ابتدائے کائنات کے وقت مادے کو کمیت کیسے حاصل ہوئی تھی
اونگلیر اور ہِگز نے 1960ء کے عشرے میں اس سوال کا جواب دینے کے لیے ایک خیالی ذرے سے متعلق تھیوری پیش کی تھی کہ ابتدائے کائنات کے وقت مادے کو کمیت کیسے حاصل ہوئی تھیتصویر: picture-alliance/AP Photo

یونیورسٹی آف ایڈنبرا کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں پیٹر ہِگز کا کہنا ہے، ’’میں رائل سویڈش اکیڈمی کی طرف سے یہ اعزاز حاصل کرنے پر انتہائی خوش ہوں۔ مجھے امید ہے کہ سائنس کے اس بنیادی معاملے کو تسلیم کیے جانے سے نیلے آسمان کی قدر و قیمت کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہو گا۔‘‘

اونگلیر اور ہِگز نے 1960ء کے عشرے میں اس سوال کا جواب دینے کے لیے ایک خیالی ذرے سے متعلق تھیوری پیش کی تھی کہ ابتدائے کائنات کے وقت مادے کو کمیت کیسے حاصل ہوئی تھی۔ اس خیالی ذرے کو ہِگز بوسون کا نام دیا گیا تھا۔

تاہم اس تھیوری کے پیش کیے جانے کے کئی دہائیوں بعد گزشتہ برس جنیوا میں قائم یورپی آرگنائزیشن فار نیوکلیئر ریسرچ CERN کے سائنسدانوں نے اس ذرے کی موجودگی کی تصدیق کی۔ یورپی پارٹیکل فزکس لیبارٹری نے اس حوالے سے اعلان گزشتہ برس جولائی میں کیا تھا۔

27 کلومیٹر طویل سرنگ میں تعمیر کیے جانے والے لارج ہاڈران کولائیڈر پر 10 بلین امریکی ڈالرز کی لاگت آئی تھی
27 کلومیٹر طویل سرنگ میں تعمیر کیے جانے والے لارج ہاڈران کولائیڈر پر 10 بلین امریکی ڈالرز کی لاگت آئی تھیتصویر: picture-alliance/dpa

اس خیالی ذرے کو ’گاڈ پارٹیکل‘ یا خدائی ذرے کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس ذرے کی تصدیق کے لیے ہزاروں سائنسدانوں پر مشتمل ٹیموں کو بہت بڑی مقدار میں ڈیٹا پراسیس کرنا پڑا۔ یہ ڈیٹا دنیا کے سب سے بڑے پارٹیکل کولائیڈر ’لارج ہاڈران کولائیڈر‘ میں اربوں پروٹونز کو آپس میں ٹکرانے کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا۔ سائنسدانوں کے مطابق ان ذرات کو ایک دوسرے سے ٹکرانے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی توانائی کے سبب ایک سیکنڈ کے ایک ٹریلین سے دو ٹریلین ویں حصے کے وہ حالات پیدا ہوئے جو متوقع طور پر بِگ بینگ کے فوری بعد پیدا ہوئے تھے۔ دائرے کی شکل میں بنی 27 کلومیٹر طویل سرنگ میں تعمیر کیے جانے والے لارج ہاڈران کولائیڈر پر 10 بلین امریکی ڈالرز کی لاگت آئی تھی۔