1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

غزہ میں جنگ کے دوران 20 ہزار بچوں کی پیدائش

19 جنوری 2024

اقوام متحدہ کی عہدیدار کے مطابق غزہ پٹی میں حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کو ناقابل یقین صورتحال کا سامنا ہے۔ بچوں کی پیدائش کے اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کے دوران ہر دس منٹ میں ایک بچے نے جنم لیا۔

https://p.dw.com/p/4bTYl
Gazastreifen, Rafah | Evakuierte Neugeborene aus dem Al-Shifa Krankenhaus
تصویر: Abed Rahim Khatib/dpa/picture alliance

اقوام متحدہ نے آج جمعہ کو کہا ہے کہ غزہ میں تین ماہ سے زیادہ عرصہ سے جاری جنگ کے دوران''ناقابل یقین حالات‘‘میں ہزاروں بچوں کی پیدائش ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ذیلی ادارے یونیسف کی ترجمان ٹیس انگرام نے غزہ پٹی کے ایک حالیہ دورے سے واپسی پر زچگی کے دوران موت کے منہ میں جانے والی ماؤں اور ایک نرس کے بارے میں بتایا، جس نے ہنگامی حالات میں چھ مردہ خواتین کے سیزیرین یعنی پیٹ چاک کرنے کے آپریشن کیے تھے تاکہ ان کے بچوں کو بچایا جا سکے۔

یونیسف کے مطابق سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اب تک 20,000 بچے پیدا ہو چکے ہیں۔ انگرام نے عمان سے ویڈیو لنک کے ذریعے جنیوا میں نامہ نگاروں کو بتایا، ''یہ اس خوفناک جنگ کے دوران ہر 10 منٹ میں پیدا ہونے والا بچہ ہے۔‘‘

Gazastreifen | Neugeborene aus dem Al Schifa Krankenhaus nach Rafah evakuiert
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق غزہ جنگ کے دوران ہر دس منٹ میں ایک بچے کی پیدائش ہوئیتصویر: Rizek Abdeljawad/Xinhua/picture alliance

ان کا کہنا تھا،''ماں بننا جشن کا وقت ہونا چاہیے لیکن غزہ میں یہ ایک اور بچےکو جہنم میں پہنچا دینے کے مترادف ہے۔‘‘ انہوں نے اس صورتحال  میں بہتری لانے کے لیے فوری بین الاقوامی کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، ''نوزائیدہ بچوں کو تکلیف میں دیکھ کر، جب کچھ ماؤں کا خون بہہ رہا ہو، ہم سب کو رات جاگتے رہنا چاہیے۔"

'دل دہلا دینے والی' ملاقاتیں

حماس کے زیر انتظام غزہ میں وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر سے لے کر اب تک اسرائیل کے بے دریغ فضائی اور زمینی حملوں میں کم از کم 24,762 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے تقریباً 70 فیصد خواتین، بچے اور نوعمر ہیں۔ ٹیس انگرام نے جنگ کی افراتفری میں پھنسی غزہ کی خواتین کے ساتھ "دل دہلا دینے والی" ملاقاتوں کا حال بھی بیان کیا۔

انہوں نے کہا کہ مشعیل نامی ایک خاتون اس وقت حاملہ تھی، جب اس کے گھر کو نشانہ بنایا گیا اور اس کا شوہر کئی دنوں تک ملبے کے نیچے دبا رہا، اس دوران مشعیل کے بچے نے حرکت کرنا چھوڑ دی۔

 انگرام کے مطابق، "وہ (مشعیل) کہتی ہیں کہ انہیں اب یقین ہے کہ بچہ ان کے پیٹ میں مر چکا ہے۔‘‘ لیکن انگرام کے مطابق یہ خاتون ''اب بھی طبی دیکھ بحال مہیا ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔" مشعیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ سب سے بہتر ہے کہ "اس ڈراؤنے خواب میں بچہ پیدا نہ ہو۔‘‘ انگرام نے ویبڈا نامی نرس کی کہانی بھی سنائی، جس نے بتایا کہ اس نے گزشتہ آٹھ ہفتوں میں چھ مردہ خواتین کے ہنگامی حالات میں پیٹ چاک کیے تاکہ ان کے بچوں کو بچایا جاسکے۔

Gazastreifen I Nasser-Krankenhaus in Khan Yunis
مسلسل اسرائیلی بمباری کی وجہ سے زخمیوں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ غزہ کے ہسپتال اس صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت کھوتے جارہے ہیںتصویر: Mahmud Hamas/AFP/Getty Images

غیرانسانی حالات

انگرام نے کہا، "ماؤں کو پیدائش سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں مناسب طبی دیکھ بھال، غذائیت اور تحفظ تک رسائی میں ناقابل تصور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔" انہوں نے مز‍ید کہا، ''غزہ کی پٹی میں حاملہ خواتین اورنوزائیدہ بچوں کی صورتحال یقین سے بالاتر ہے اور یہ سخت اور فوری اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔‘‘ انگرام کا کہنا تھا کہ رفح میں قائم متحدہ امارات کا ہسپتال اب غزہ میں حاملہ خواتین کی اکثریت کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتہائی نامساعد حالات اور محدود وسائل کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے اس ہسپتال کا عملہ حاملہ ماؤں کے پیٹ چاک کرنے والی جراحی کے تین گھنٹے کے اندر انہیں ڈسچارج کرنے پر مجبور ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "یہ حالات ماؤں کو اسقاط حمل، بچوں کی قبل از پیدائش اموات، قبل از وقت زچگی کے درد، زچگی کی اموات اور جذباتی صدمے کے خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور شیر خوار بچے عارضی پناہ گاہوں میں ناقص غذائیت اور پینے کے غیر محفوظ پانی کی وجہ سے "غیر انسانی" حالات میں رہ رہے ہیں۔

ش ر⁄ ر ب (اے ایف پی)

غزہ: جبالیہ مہاجر کیمپ پر اسرائیلی حملے میں درجنوں ہلاکتیں