1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ ميں فائر بندی کے لیے عالمی برداری کا اصرار

عاطف بلوچ21 جولائی 2014

امریکی صدر باراک اوباما نے حماس اور اسرائیل کے مابین فوری فائر بندی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس تنازعے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CftQ
تصویر: AFP/Getty Images

اتوار کی شب امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے اسرائیليوں اور فلسطینیوں کی ہلاکتوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور زور دیا کہ غزہ میں فوری طور پر فائر بندی کا معاہدہ طے ہو جانا چاہیے۔ ایک ہفتے کے دوران اسرائیلی وزير اعظم کو کی جانے والی اپنی اس تیسری ٹیلی فون کال میں اوباما نے واضح کیا کہ واشنگٹن حکومت اسرائیل کی طرف سے اپنے دفاع کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے۔

سکیورٹی کونسل کا خصوصی اجلاس

US-Präsident Barack Obama bei PK
امریکی صدر باراک اوباما نے فائر بندی پر زور دیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں فائر بندی کی کوششوں کے لیے خصوصی مذاکرات کے بعد زور دیا کہ اطراف اس تنازعے کے خاتمے کے لیے فوری فائر بندی پر متفق ہو جائیں۔ سلامتی کونسل نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں اس تنازعے کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر شدید تحفظات و تشويش کا اظہار بھی کیا ہے۔

اس کے باوجود پیر کی صبح بھی اسرائیلی فوج نے غزہ میں اپنی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا جبکہ حماس کی طرف سے بھی اسرائيل کی جانب مسلسل راکٹ حملے جاری ہیں۔ غزہ میں گزشتہ پانچ برسوں کے بعد اتوار کا دن سب سے خونریز ترین رہا۔ غزہ کے طبی ذرائع کے مطابق اس دن 120 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر تعداد بچوں اور خواتین کی بتائی جا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں مجموعی طور پر 476 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اتوار کے دن ہی اسرائیلی فوج نے تصدیق کی کہ غزہ میں زمینی آپریشن کے تیسرے دن اس کے مزید تیرہ فوجی مارے گئے۔ یوں اس تنازعے کے دوران اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد اٹھارہ ہو گئی ہے۔

ایک تازہ پیشرفت میں حماس کے جنگجو دھڑے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ایک اسرائیلی فوجی کو اغوا کر لیا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفارتکار نے ایسی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں صرف ایک بے بنیاد افواہ قرار دیا ہے۔

جان کیری کا دورہ مصر

حماس کی طرف سے راکٹ حملوں کے جواب میں آٹھ جون کو اسرائیلی دفاعی افواج نے جنگجوؤں کے خلاف اپنی فضائی کارروائی شروع کی تھی جبکہ جمعرات سے بری فوج بھی غزہ میں داخل ہو گئی تھی۔ اگرچہ عالمی برداری غزہ میں فائر بندی کا تقاضا کر رہی ہے تاہم اسرائیلی وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ وہ غزہ میں اپنی زمینی کارروائی میں توسیع کر رہے ہیں۔

اس صورتحال میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے مشرق وسطیٰ پہنچنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی قاہرہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ جان کیری اپنے اس دورے کے دوران مصری اور دیگر علاقائی رہنماؤں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں اسرائیل اور حماس کے مابین فائر بندی کی کوششیں کریں گے۔

Zivilisten leiden in Gaza
غزہ طبنی ذرائع کتے مطابق ہلاک ہونے والے زیادہ تر فلسطینی شہری ہیںتصویر: DW/Shawgy el Farra

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی ٹیلی فون پر نیتن یاہو سے اپنی گفتگو میں اسرائیل کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے البتہ فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم پر زور دیا کہ ’تشدد کے اس چکر‘ سے نکلنے کے لیے مصر کی طرف سے پیش کردہ فائر بندی کا مجوزہ منصوبہ اہم ثابت ہو سکتا ہے۔

دوحہ میں مذاکرات

اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون اپنے مشرقی وسطیٰ کے دورے کے دوران دوحہ پہنچ چکے ہیں، جہاں حماس کے رہنما خالد مشعل اور فلسطینی صدر محمود عباس فائر بندی کے لیے آج بروز پیر ملاقات کرنے والے ہیں۔ یہ ملاقات اگرچہ بروز اتوار ہونا تھی تاہم اسے ایک دن کے لیے مؤخر کر دیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اس دوران بان کی مون بھی اطراف کے مابین اختلافات کو دور کرتے ہوئے فائر بندی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوشش کریں گے۔

بان کی مون نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے۔ دوحہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا، ’’بہت زیادہ معصوم لوگ مارے جا رہے ہیں، لوگ خوف کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس تنازعے کے حل کے لیے اطراف کو مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔