1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غربت اور پریشانی نے اٹلی میں بھی جان نہ چھوڑی

عدنان اسحاق12 اگست 2013

ہر سال افریقہ سے ہزاروں نوجوان تارکین وطن یورپ میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے کے لیے اٹلی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اٹلی میں روزگار کے محدود مواقعوں کی وجہ سے ان تارکین وطن کو شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

https://p.dw.com/p/19O5c
تصویر: picture alliance / dpa

تیز ہوا ڈبوں اور پلاسٹک سے بنے ہوئے متعدد گھروں سے ٹکرا رہی ہے۔ ایک کمرے والے اِن گھروں کے آگے مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔ قریب ہی کوڑے کرکٹ کا پہاڑ ہے۔ تعفن کی انتہا یہ ہے کہ اس جگہ چند لمحوں کے لیےکھڑا ہونا بھی محال ہے۔ یہاں نہ تو پینے کا صاف پانی دستیاب ہے، نہ بجلی ہے اور نہ ہی نکاسی آب کا نظام موجود ہے۔ یہاں پر رہنے والے اسے ایک کچی بستی قرار دیتے ہیں۔ اس کچی بستی کے ایک کمرے میں پانچ افراد زمین پر بچھے ہوئےگدوں پر لیٹے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کمرے میں رکھے ہوئے مزید دس گدے خالی ہیں۔ لٹکی ہوئی رسیاں کپڑے لٹکانے کے کام آ رہی ہیں جب کہ پلاسٹک کے ڈبے کھانے پینے کی اشیاء محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

یہ ابرا ممباکے’ Ibra Mbacke ‘ کا گھر ہے۔ اس میں وہ مزید بیس افراد کے ساتھ رہتا ہے اور ان میں سے زیادہ تر مغربی افریقی ممالک سے آئے ہوئے ہیں۔ ابرا غربت سے جان چھڑا کر اور اچھی زندگی کا خواب لے کر بارہ سال قبل سینیگال سے اٹلی آیا تھا۔ لیکن غربت اور پریشانی نے اس کا یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ وہ خطرناک سمندری لہروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اٹلی کے جنوبی ساحلوں تک پہنچا تھا۔

Überfahrt Mittelmeer Ünglücke Schiffsuntergang Flash-Galerie
تصویر: picture-alliance/dpa

’’میں یہاں روزگار کی تلاش میں آیا تھا تا کہ میں کچھ پیسے کما کر اپنی اور سینیگال میں اپنے گھر والوں کی زندگی کو بہتر بنا سکوں۔‘‘

بتیس سالہ ابرا پیشے کے اعتبار سے ترکھان ہے۔ ابتدا میں اسے سبزیاں اور پھل کاٹنے کا کام ملا، جس میں اس کی اجرت انتہائی کم تھی۔ لیکن جیسے ہی اٹلی کساد بازاری کا شکار ہوا، یہ کام بھی نایاب ہو گیا۔ یہ صورت حال ابرا کو ڈبوں سے بنے ہوئےاس گھر تک لے آئی۔

’’ تین ماہ ہو گئے ہیں کہ میں اپنے گھر والوں کو رقم نہیں بھیج سکا ہوں۔ میں انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ میں بے روزگار ہوں اور میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ میرا یقین نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں انہیں نظر انداز کرتے ہوئے تمام رقم اپنی عیاشی پر صرف کر رہا ہوں۔ ‘‘

ابرا کو اٹلی اور افریقی مافیا گروپ ’کاپولاری‘ کی جانب سے کھیتوں میں کام کرنے پر تین یورو اور پچاس سینٹ فی گھنٹہ دیے جاتے تھے۔ پھر اس نے کاپولاری سے باقاعدہ معاہدہ کرنے کی درخواست کی جسے رد کر دیا گیا۔ ابرا کو علم ہے کہ اگر کسی کے پاس باقاعدہ روزگار ہو اور کسی وجہ سے اس کی ملازمت ختم ہو جائے تو ایسی صورت میں اسے حکومت کی جانب سے ماہانہ کچھ رقم دی جاتی ہے۔ کاپولاری گروپ کو تارکین وطن کے حقوق میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ مافیا گروپ کھتیوں کے مالکان کوکام کرنے کے لیے انتہائی سستے داموں افرادی قوت مہیا کرنے کے لیے رقم وصول کرتے ہیں۔

اس شہر کے میئر جیافرانکو ساوینو یہ تسیلم کرتے ہیں کہ وہ کچی بستی میں رہنے والے افریقی باشندوں کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے۔’’ اٹلی کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کل ہمارے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی مدد کی ضرورت ہے۔ وفاق سے لے کر مقامی سطح تک اٹلی مالی مسائل کا شکار ہے اور امیگریشن مشکلات اس کے علاوہ ہیں۔‘‘ اقوام متحدہ کے مطابق اس سال کی پہلی ششماہی میں تقریباً آٹھ ہزار افریقی تارکین وطن سمندر کے راستے سے جنوبی اٹلی پہنچے ہیں۔

Illegale Immigranten provisorische Unterkunft Italien
تصویر: picture-alliance/dpa

ابرا کے لیے یورپ میں ایک بہتر زندگی گزارنے کی خواہش ایک ڈراؤنے خواب میں بدل چکی ہے۔ موجودہ صورت حال میں اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ڈبوں سے بنے ہوئے اس گھر میں رہتے ہوئے نوکری تلاش کرتا رہے۔ ابرا کے لیے ہار تسلیم کرنا اور واپس سینیگال جانا شکست کے مترادف ہے۔