1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عورت مکھی ہے تو مرد کیا ہے؟

12 اپریل 2024

عدنان صدیقی صاحب نے ایک پروگرام میں فرمایا کہ خواتین مکھیوں کی طرح ہوتی ہیں جتنا ان کے پیچھے بھاگو وہ آگے بھاگتی ہیں جتنا سکون سے بیٹھو وہ پاس آجاتی ہیں۔ پاکستان میں عورت کے لیے ایسے الفاظ ہمیشہ سے استعمال ہوتے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4egPa
Blogerin Sana Zafar
تصویر: Privat

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ کوئی عورت کو زمین پر گری ہوئی ٹافی چاکلیٹ وغیرہ سے تشبیہ دیتا ہے اور کوئی ریپر میں لپٹی ہوئی اور بغیر ریپر کے میٹھی چیز کی مثال سے پردے کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ جیسے زمین پر گئی ہوئی ٹافی چاکلیٹ پر کیڑے مکوڑے اور غلاظت جمع ہوتی ہے ویسے ہی کسی ہجوم میں عورت کی طرف مرد کھنچتے ہیں۔ اسی طرح ریپر میں لپٹی میٹھی چیز کی مثال بھی با پر دہ عورت کی سی ہے اور وہ کیڑے مکوڑے جانور غلاظت سب سے محفوظ رہتی ہے۔

 ایسی تشبیہات پر مجھ جیسی نادان خواتین اکثر اعتراض کرتی ہیں کہ جیتی جاگتی سانس لیتی خواتین کو ایک بے جان ٹافی کیوں تصور کیا جا رہا ہے؟ بات کا مقصد اچھا بھی ہو تو یہ مثال معقول نہیں ٹھہرتی۔ وہ تو وقت گزرنے کے ساتھ مجھے سمجھ آیا کہ یہ تو مردوں کا بڑا پن ہے کہ وہ دراصل عورت کو ٹافی جتنا چھوٹا نہیں کر رہے بلکہ اپنے آپ کو کیڑا مکوڑہ اور غلاظت کہہ رہے ہیں اس لیے دل پر بات لینے کی بجائے ان کی ہاں میں ہاں ملانی چاہیے کیونکہ کہ انسان اپنی جگہ خود بہتر سمجھتا ہے.

پچھلے دنوں پاکستان کے ایک نامور فنکار عدنان صدیقی صاحب نے ایک پروگرام میں فرمایا کہ خواتین کی مثال مکھیوں کی سی ہے جتنا ان کے پیچھے بھاگو وہ آگے آگے بھاگتی ہیں اور جتنا سکون سے بیٹھو وہ خود ہی پاس آجاتی ہیں، اور آکر آستین پر بیٹھ جاتی ہیں۔ یہ جملہ سننے والی ہوسٹ بھی ایک خاتون تھیں اور انہوں نے اس جملے کو کافی انجوائے بھی کیا۔

 ان کے اس بیان پر بھی کچھ اعتراضات ہوئے مگر انہوں نے تردیدی بیان میں واضح کیا کہ ان کے الفاظ کا غلط مطلب لیا گیا ہے اور ان کا مقصد دل آزاری نہیں تھا. یہ وہی فنکار ہیں جو کئی دہائیوں سے بہت مقبول ہیں مگر کچھ عرصہ پہلے نشر ہونے والا ڈرامہ میرے پاس تم ہو میں منفی کردار ادا کرنے کے بعد شہرت کی نئی بلندیوں پر پہنچ گئے تھے اور مختلف پروگراموں میں بارہا دوہرا چکے ہیں کہ کہ وہ حقیتی زندگی میں شہوار ہی ہیں شاید اسی لیے اپنے آپ کو خواتین کے روئیوں کے ماہر سمجھتے ہیں اور انہیں مکھیوں کے برابر گردانتے ہیں۔ بظاہر یہ شاید کوئی بڑی بات نہیں مگر درحقیقت یہ سوچ معاشرے کی اجتماعی سوچ کی عکاس ضرور ہے۔ اگر ہم اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کو نظر انداز کرتے رہے اور مزاح میں بڑھاوا دیتے رہے تو بہتری کی امید مدہم پڑتی جائے گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔