1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب ليگ کا اسرائيل کو ’يہودی رياست‘ تسليم کرنے سے انکار

عاصم سليم10 مارچ 2014

عرب ليگ کے وزرائے خارجہ نے قاہرہ ميں منعقدہ اجلاس کے بعد جاری کردہ ايک قرارداد ميں اسرائيل کے اس مطالبے کو مسترد کر ديا ہے کہ فلسطين اسرائيل کو ’يہودی رياست‘ کے طور پر تسليم کرے۔

https://p.dw.com/p/1BMam

فلسطين اور اسرائيل کے تنازعے کے حوالے سے سات صفحات پر مبنی اِس قرارداد ميں لکھا ہے کہ ’اسرائيل اور چند بين الاقوامی فريقين کے اسرائيل کو يہودی رياست تسليم کرنے سے متعلق اِس مطالبے کو مسترد کيا جاتا ہے، جِس کا مقصد فلسطينی پناہ گزينوں کی واپسی اور اُنہيں زِر تلافی کی ادائيگی کے حقوق کو ختم کرنا ہے۔‘

عرب ليگ کے سربراہ نبيل العربی
عرب ليگ کے سربراہ نبيل العربیتصویر: picture-alliance/dpa

اِس قرارداد ميں اسرائيل و فلسطين کے تنازعے سے نمٹنے کے ليے بين الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کا مطالبہ کيا گيا ہے اور عالمی مبصرين پر مبنی ’کوارٹٹ‘ کے کردار کا بھی دوبارہ جائزہ ليے جانے کا کہا گيا ہے، جو قرارداد کے مطابق تاحال مکمل طور پر امن قائم کرنے ميں ناکام رہے ہيں۔

مصری دارالحکومت قاہرہ ميں منعقدہ عرب ليگ کے اجلاس ميں اپنی تقرير کے دوران ليگ کے سربراہ نبيل العربی نے عرب رياستوں پر زور ديا کہ وہ يہودی رياست کو تسليم کيے جانے کے اسرائيلی مطالبے کے خلاف پختہ قدم رہيں۔ العربی نے کہا کہ اسرائيلی مطالبہ امن مذاکرات کے ليے طے شدہ فريم ورک سے ہٹنے کے مساوی ہے۔ انہوں نے اسرائيل پر الزام عائد کيا کہ وہ اِس کے ذريعے امن مذاکرات کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔

گزشتہ روز منعقدہ اِس اجلاس ميں يہ فيصلہ بھی کيا گيا کہ مارچ کے آخری ہفتے ميں کويت ميں ہونے والے عرب رہنماؤں کے سربراہی اجلاس ميں اِس معاملے کو دوبارہ اٹھايا جائے گا۔

US Präsident Obama und Israels Premier Ministe Benjamin Netanjahu
نيتن ياہو ابھی پچھلے ہی دنوں اپنے دورہ امريکا کے موقع پر اوباما سے مل چکے ہيںتصویر: picture-alliance/dpa

بعد ازاں اجلاس کے اختتام پر فلسطينی وزير خارجہ رياض مالکی نے رپورٹروں سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ اِس قرارداد سے صدر محمود عباس کی پوزيشن مستحکم ہوئی ہے اور اُن کے موقف کو تقويت ملی ہے۔ فلسطينی صدر عباس عنقريب امريکا کا دورہ کرنے والے ہيں اور ستّرہ مارچ کو اُن کی امريکی صدر باراک اوباما کے ساتھ ملاقات طے ہے۔ امکان ہے کہ اُن پر اس دورے ميں کافی دباؤ ہوگا۔ مالکی نے مزيد کہا، ’’عرب ليگ کے وزرائے خارجہ نے يہ قرارداد اِس ليے منظور کی تاکہ محمود عباس واشنگٹن جا کر اُن يعنی وزرائے خارجہ کے حوالے سے بات کر سکيں۔‘‘

يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فلسطينی صدر يہ کہہ چکے ہيں کہ ’فلسطينی لبريشن آرگنائزيشن‘ 1993ء ميں اسرائيل کو رياست کے طور پر تسليم کر چکی ہے اور يہ کافی ہے۔

فلسطين اوراسرائيل کے درميان امن مذاکرات کا آغاز کئی سال کی تعطلی کے بعد گزشتہ برس ہی ہوا ہے، جس ميں واشنگٹن کی ثالثی کا کردار کليدی رہا۔ تاہم يہ مذاکراتی عمل تنازعات کا شکار ہے کيونکہ فلسطين 1967ء سے اسرائيل کے زير قبضہ حصوں مغربی کنارے، غزہ پٹی اور مشرقی يروشلم ميں رياست کے قيام کا خواہاں ہے ۔ نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کے مطابق اگرچہ امريکا اِس فلسطينی مطالبے کی تائيد کرتا ہے لیکن اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو اِسے تسليم کرنے کے ليے تيار نہيں۔ نيتن ياہو ابھی پچھلے ہی دنوں اپنے دورہ امريکا کے موقع پر اوباما سے مل چکے ہيں۔