1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی کُرد کوبانی کے دفاع کے ليے روانہ

عاصم سليم29 اکتوبر 2014

عراقی کُرد فورسز پيش مرگہ کا ايک دستہ ترکی کی سرحد سے ملحقہ شامی کُرد شہر کوبانی ميں اسلامک اسٹيٹ کے خلاف جاری لڑائی ميں حصہ لينے کے ليے روانہ ہو گيا ہے۔ فوجی اپنی پہلی منزل ترکی پہنچ چکے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1DdXC
تصویر: AFP/Getty Images/Safin Hamed

عراقی کُرد حصے کے مرکزی شہر اربيل ميں منگل اٹھائيس اکتوبر کو ہزاروں افراد نے نعرے لگاتے اور پرچم لہراتے ہوئے کُرد افواج کو الوداع کيا۔ 150 فوجيوں پر مشتمل يہ دستہ ترکی کے راستے کوبانی پہنچے گا اور پھر وہاں اسلامک اسٹيٹ کے جنگجوؤں کے خلاف برسرپيکار مقامی کُردوں کے ہمراہ لڑائی ميں حصہ لے گا۔

قبل ازيں انقرہ حکومت نے پيش مرگہ فورسز کو يہ اجازت دے دی تھی کہ وہ براستہ ترکی شامی علاقے ميں داخل ہو سکتی ہيں تاہم ترک وزير اعظم احمد داؤد اوگلو نے يہ واضح کر ديا تھا کہ ان کے ملک کی بری فوج کوبانی کی لڑائی کا حصہ نہيں بنے گی۔

جنگ کے نتيجے ميں تين ملين سے زائد شامی باشندے نقل مکانی کر چکے ہيں
جنگ کے نتيجے ميں تين ملين سے زائد شامی باشندے نقل مکانی کر چکے ہيںتصویر: Reuters/Kai Pfaffenbach

امريکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جينيفر ساکی نے اس بارے ميں منگل کے روز جاری کردہ اپنے بيان ميں کہا کہ امريکی اہلکار لازمی طور پر کوبانی ميں عراقی پيش مرگہ کے تعيناتی کی حوصلہ افزائی کرتے ہيں۔ ترک وزير اعظم اوگلو نے ايک بين الاقوامی نشرياتی ادارے سے بات چيت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوبانی کی مدد کا واحد راستہ يہی تھا کہ عراقی کُردوں کو وہاں تعينات کر ديا جائے۔

يہ امر اہم ہے کہ سنی شدت پسندوں کی تنظيم اسلامک اسٹيٹ نے ايک ماہ سے زائد عرصے سے کوبانی پر قبضہ کرنے کے ليے کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے۔ ستمبر کے وسط سے جاری اس کارروائی ميں آٹھ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں جبکہ شدت پسندوں نے شہر کے کچھ حصوں کے علاوہ اس کے ارد گرد کے کئی چھوٹے ديہاتوں پر بھی قبضہ کر ليا ہے۔ اس تصادم کے سبب کوبانی سے قريب دو لاکھ افراد ترکی نقل مکانی کر چکے ہيں۔ امريکا نے اپنے عرب اور مغربی اتحاديوں کے ہمراہ کوبانی سميت شام اور عراق کے کئی حصوں ميں اسلامک اسٹيٹ کے ٹھکانوں پر فضائی کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ انقرہ حکومت شامی کردوں کو کُردستان ورکرز پارٹی کے حصے کے طور پر ديکھتی ہے۔ يہ تنظيم ترکی ميں گزشتہ تيس برس سے بغاوت جاری رکھے ہوئے، جس سبب امريکا اور مغربی دفاعی اتحاد نيٹو اسے دہشت گرد تنظيم قرار دے چکے ہيں۔ ترک حکومت پر ملکی و شامی کرد آبادی کے علاوہ عالمی برادری کی طرف سے کافی دباؤ تھا کہ وہ مغربی سرحدوں پر جہادیوں کی پيش قدمی کے خلاف موثر کارروائی کرے۔ اسی ليے اس نے عراقی کُردوں، جن کے انقرہ کے ساتھ اچھے روابط ہيں، کو براستہ ترکی شام جانے کی اجازت دی۔

دريں اثناء امريکی مرکزی کمان کے مطابق گزشتہ چوبيس گھنٹوں کے دوران امريکی فوج نے کوبانی کے آس پاس چار تازہ فضائی حملے کيے ہيں، جس ميں شدت پسندوں کے ايک يونٹ سميت چار محاذوں کو تباہ کر ديا گيا ہے۔

ادھر جرمن دارالحکومت برلن ميں شامی مہاجرين کی امداد کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس ميں شام کے پڑوسی ملکوں نے يورپی ممالک پر زور ديا ہے کہ وہ مزيد مہاجرين کے ليے اپنے دروازے کھوليں اور مالی و تکنيکی امداد بھی بڑھائيں۔ برلن ميں گزشتہ روز منعقدہ اس کانفرنس ميں وزرائے خارجہ سميت چاليس ممالک کے مندوبين نے حصہ ليا۔ شام ميں مارچ 2011ء سے جاری خانہ جنگی کے نتيجے ميں تين ملين سے زائد شامی باشندے نقل مکانی پر مجبور جبکہ مزيد چھ ملين شام ہی ميں بے گھر ہو چکے ہيں۔