1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی صدر کی ڈیڑھ سال بعد وطن واپسی

امجد علی19 جولائی 2014

عراقی صدر جلال طالبانی علاج کی غرض سے ڈیڑھ برس تک جرمنی میں مقیم رہنے کے بعد صحت یاب ہو کر ہفتہ اُنیس جولائی کو واپس وطن پہنچ رہے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اُن کی واپسی ملک کی سیاسی صورتِ حال پر کیا اثرات مرتب کرے گی۔

https://p.dw.com/p/1CfSg
تصویر: Getty Images

اَسّی سالہ طالبانی عراق میں ایک اہم بزرگ سیاستدان کی حیثیت رکھتے ہیں اور عشروں سے کردستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے سیاستدان کے طور پر وہ ایک ماہر مذاکرات کار کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔

2005ء میں عراقی صدر منتخب ہونے والے طالبانی پر دسمبر 2012ء میں فالج کا حملہ ہوا تھا، جس کے بعد اُنہیں علاج کے لیے جرمن دارالحکومت برلن منتقل کر دیا گیا تھا۔ اٹھارہ مہینوں تک جرمنی میں مقیم رہنے کے بعد وہ اپنے اُس وطن میں لوٹ رہے ہیں، جہاں جہادیوں کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے باعث ملک گزشتہ کئی عشروں کے شدید ترین بحران کا شکار ہو چکا ہے۔

23 مئی 1992ء کی اس تصویر میں ڈیموکریٹک پارٹی آف کردستان DPK کے سربراہ مسعود برزانی (دائیں) اور پیٹریاٹک یونین آف کردستان PUK کے سربراہ جلال طالبانی (بائیں) باہمی اتحاد اور اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے
23 مئی 1992ء کی اس تصویر میں ڈیموکریٹک پارٹی آف کردستان DPK کے سربراہ مسعود برزانی (دائیں) اور پیٹریاٹک یونین آف کردستان PUK کے سربراہ جلال طالبانی (بائیں) باہمی اتحاد اور اتفاق کا اظہار کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

اس سابقہ کرد باغی لیڈر کی وطن واپسی عراق کی گرما گرم سیاسی صورتِ حال پر کیا اثرات مرتب کرے گی، ابھی اس سلسلے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے منقسم گروپوں کے درمیان رابطے کے پُل تعمیر کرنے کا طویل تجربہ رکھنے کی وجہ سے وہ عراق میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ضرور دے سکتے ہیں۔

عرب اکثریت کے حامل کسی ملک کے واحد غیر عرب صدر ہونے کے ناتے اُن کے اُس کردار کو زبردست انداز میں سراہا گیا تھا، جو اُنہوں نے عراق پر امریکی سرکردگی میں ہونے والے حملے کے بعد شروع ہونے والی فرقہ وارانہ جنگ کے عروج کے زمانے میں ملک کی سنّی اقلیت اور شیعہ اکثریت کے درمیان ثالثی کے لیے ادا کیا تھا۔

طالبانی کے ایران اور امریکا دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں اور اسی وجہ سے وہ پُر خطر سیاسی فیصلوں یا غیر متوقع اتحاد قائم کرنے کے معاملے میں کبھی بھی نہیں گھبرائے۔ اُنہیں عرب اور کرد گروپوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کامیاب کوششوں کے ساتھ ساتھ شام اور ایران کے ساتھ خراب تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بھی سراہا گیا۔

عراقی صدر جلال طالبانی (دائیں) عراقی وزیر اعظم نوری المالکی (بائیں) کے ساتھ
عراقی صدر جلال طالبانی (دائیں) عراقی وزیر اعظم نوری المالکی (بائیں) کے ساتھتصویر: AP

1933ء میں کلکان نامی ایک پہاڑی گاؤں میں پیدا ہونے والے طالبانی جوان ہوتے ہی اُن کردوں کے لیے ایک آزاد وطن کی جدوجہد میں شامل ہو گئے تھے، جو عراق، ایران، ترکی اور شام میں بکھرے ہوئے ہیں۔

بغداد یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ملا مصطفیٰ برزانی کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (KDP) میں شامل ہو گئے تھے۔ مصطفیٰ برزانی موجودہ کردستان کے علاقائی صدر مسعود برزانی کے والد تھے۔

مصطفیٰ برزانی کے ساتھ اختلافات پیدا ہونے کے بعد جلال طالبانی نے 1964ء میں ’کے ڈی پی‘ کے ایک اور دھڑے میں شمولیت اختیار کر لی۔ گیارہ سال بعد جب صدام حسین کی فوجوں نے برزانی کی ایرانی، امریکی اور اسرائیلی تائید و حمایت سے محروم ہو جانے والی فورسز کو شکست دے دی تو طالبانی نے PUK کے نام سے ایک نئی جماعت قائم کی۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ایک فوجی، ایک باغی اور پھر ایک سیاستدان کی حیثیت سے سرگرم رہنے کی وجہ سے طالبانی کی سیاسی مہارت اور مذاکرت کاری کی صلاحیت میں نکھار پیدا ہوا ہے۔

دو بچوں کے باپ طالبانی کا 2008ء میں امریکا میں دل کا آپریشن ہوا تھا، جس کے بعد فالج کے حملے کے باعث وہ جرمنی منتقل ہوئے اور لگ یہی رہا تھا کہ شاید وہ کبھی بھی وطن نہیں لوٹ پائیں گے۔ ایسے تمام تر خدشات کے برعکس وہ آج ہفتہ اُنیس جولائی کو عراق واپس پہنچ رہے ہیں۔