1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق، سزائے موت میں اضافہ

افسر اعوان31 دسمبر 2013

بین الاقوامی مذمت کے باوجود عراق میں سزائے موت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انتخابات سے قبل ملک میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کی کوشش کے طور پر سزائے موت دیے جانے کی شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1AjTJ
تصویر: picture alliance/dpa

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سال 2013ء کے دوران عراق میں کم از کم 169 افراد کو پھانسی دی گئی۔ یہ تعداد 2003ء میں امریکی سربراہی میں عراق پر ہونے والے حملے کے بعد کسی بھی ایک سال کے دوران سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اس تعداد کے ساتھ عراق سزائے موت دینے کے حوالے سے اس برس چین اور ایران کے بعد تیسرا بڑا ملک ہے۔

عراقی حکام کے مطابق سزائے موت دیے جانے کی نہ صرف اسلام میں اجازت ہے بلکہ اس سے تشدد کے سلسلے پر قابو پانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ تاہم رواں برس عراق میں ہونے والے پر تشدد واقعات اس بات کی نفی کرتے ہیں۔ 2013ء عراق میں سال 2008ء کے بعد سب سے زیادہ خونریز ترین سال ثابت ہوا۔

دوسری طرف انسانی حقوق سے متعلق گروپ اور سفارت کاروں کی طرف سے اس سزا پر عملدرآمد کو روکنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں عراقی سکیورٹی فورسز اور وہاں کے فوجداری عدالتی نظام میں مسائل کے باعث اس سزا کا غلط استعمال بھی ہو رہا ہے۔

عراق میں نظام انصاف ’مناسب طور پر کام نہیں کر رہا‘، ناوی پلے
عراق میں نظام انصاف ’مناسب طور پر کام نہیں کر رہا‘، ناوی پلےتصویر: Reuters

نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ سے منسلک عراق سےمتعلق معاملات کے ریسرچر ایرن ایورز Erin Evers کے بقول، ’’سزائے موت دیےجانے سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات فوجداری انصاف کے نظام میں سقم اور نامناسب طور پر کام کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ جن لوگوں کو سزائے موت دی جا رہی ہو وہ بے قصور ہوں۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق عام طور پر لوگوں کو گروپ کی صورت میں پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے۔ رواں ماہ یعنی دسمبر میں سات افراد کو پھانسی دی گئی جس سے سال 2013ء کے دوران دی جانے والی کُل پھانسیوں کی تعداد 169 تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ برس یعنی 2012ء میں 129 افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی سربراہ ناوی پِلے کہہ چکی ہیں کہ عراق میں نظام انصاف ’مناسب طور پر کام نہیں کر رہا‘۔ جبکہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے 2012ء میں انسانی حقوق کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ’’گرفتاری سے لے کر تفتیشی مراحل، مقدمے سے پہلے حراست میں لینے کے دوران اور پھر سزا سنائے جانے کے بعد کے بھی خاص طور پر پولیس اور فوج کی طرف سے تشدد اور بدسلوکی کے قابل اعتبار شواہد عام تھے۔‘‘

تاہم عراقی وزیر انصاف حسن الشماری کے مطابق سزائے موت پر عملدرآمد انتہائی محتاط اور مکمل قانونی مراحل سے گزر کر ہی کیا جاتا ہے۔