1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی کوریا میں امریکی شہری کو پندرہ سال کی سزائے قید

2 مئی 2013

شمالی کوریا نے ریاست کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے کے الزام پر امریکی شہری کینتھ بے کو پندرہ سال قید با مشقت کی سزا سنا دی ہے۔

https://p.dw.com/p/18QQJ
تصویر: picture alliance/AP Photo

امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پیونگ یانگ بے کو واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات میں سودے بازی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

44 سالہ بے نے جنوبی کوریا میں پیدا ہوئے اور امریکی یونیورسٹی اوریگن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ امریکی میڈیا کے مطابق Kenneth Bae کی حالیہ رہائش گاہ سیاٹل شہر کے نواحی علاقے لین وڈ میں ہے۔

Kenneth Bae کو یہ سزا ایک ایسے وقت میں سنائی گئی ہے جبکہ جزیرہ نما کوریا پر حالات گزشتہ دو ماہ سے انتہائی کشیدہ ہیں اور پیونگ یانگ نے امریکا اور جنوبی کوریا کو ایٹمی جنگ کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بے کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے۔ پیونگ یانگ کے حکام نے انہیں بھوکے بچوں یا اڑتی ہوئی چڑیوں کی تصویریں لینے پر گرفتار کیا تھا۔ بے کو نومبر کے مہینے میں اُس وقت گرفتارکیا گیا تھا جب وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ شمالی کوریا کے شمال مشرقی شہر راجن کے دورے پر تھے۔

شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی کے سی این اےکے مطابق، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں Kenneth Bae پر ریاست کے خلاف ارتکاب جرم کے علاوہ کوئی دوسرا مخصوص الزام عائد نہیں کیا ہے۔

سیول کے ایک تھینک ٹینک نے کہا ہے کہ پیونگ یانگ نے Keeneth Bae کو مذاکرات کی میز پر سودے بازی کے طور پر استعمال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

Nordkorea USA Geiseln frei Flughafen von Pyongyang Bill Clinton
تصویر: AP

سن 2009 میں پیونگ یانگ نے دو امریکی صحافیوں Laura Ring اور Euna Lee کو بارہ سال کی سزائے قید سنائی تھی۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اِن صحافیوں کی رہائی کے لیے پیونگ یانگ کا دورہ کیا تھا۔

سیول میں کومکن یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر یانگ مئونگ بونگ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے Keeneth Bae کو سخت سزا سنائی ہے۔ شمالی کوریا کے قوانین کے مطابق، ریاست مخالف کارروائیوں پر مجرموں کو پانچ سے دس سال کی سزا سنائی جاتی ہے۔

بے کو وکیل کی خدمات سویڈش سفارت خانے کی جانب سے پہنچائی گئی تھیں۔ شمالی کوریا کے امریکا کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے سویڈش سفارت خانے نےہمیشہ اِس کیس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

zh/ai (Reuters)