1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی وزیرستان مزید تیس دہشت گرد ہلاک

فرید اللہ خان، پشاور5 اگست 2014

پاکستانی فوج کے مطابق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں منگل کے روز فضائی کارروائی کے دوران 30 دہشت گرد مارے گئے ہیں اور ان میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ اس دوران دہشت گردوں کے چھ ٹھکانے بھی تباہ کر دیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Cp6d
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images

پاکستانی فوج نے زمینی آپریشن کے بعد میرعلی اور میران شاہ کے متعدد علاقوں کو عسکریت پسندوں سے خالی قرار دے دیا ہے۔ 15جون سے جاری اس آپریشن میں اب تک پانچ سو سے زیادہ عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کے مکمل ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ تجزیہ نگار اور قبائلی اُمور کے ماہر عقیل یوسفزئی کا کہنا ہے’’ شمالی وزیرستان کے گھنے جنگلات اور دشوار گزار پہاڑوں کی وجہ سے فوج کو زمینی آپریشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں گوریلا جنگ لڑی جاتی ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں یہاں فوج کو ٹینک کے استعمال میں دشواری ہوگی اور اسی وجہ سے فضائی نگرانی اور کارروائی سے کام لینا بہتر ہو گا‘‘۔

Bildergalerie Lage der geflohenen FlüchtlingsKinder aus Nord Waziristan
تصویر: DW/D. Baber

اس آپریشن کی وجہ سے شمالی وزیرستان سے دس لاکھ افراد نے نقل مکانی کی ہے جو زیادہ تر خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قومی جرگہ کے رُکن رحمت اللہ داوڑ نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ”جس طرح ہم نے پاکستان کے ساتھ وفاداری اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنا گھر بار چھوڑا ہے اسی طرح جتنا جلد ممکن ہو سکے شمالی وزیرستان کے بے گھر افراد کو اپنے علاقوں میں جانے دیا جائے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جن علاقوں کی کلیئرنس سے حکومت مطمئن ہے وہاں کے لوگوں کی مرحلہ وار واپسی شروع کی جائے اور اس دوران متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی کا کام بھی شروع کیا جائے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے سے نقل مکانی کرنے والوں کے لیے خیمہ بستی بنائی گئی ہے تاہم شدید گرمی اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے وہاں کوئی رہنے پر تیار نہیں۔ ان تناظر میں سپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر نے ڈوئچے ویلے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” قبائلی علاقوں سے آنے والے ان لاکھوں افراد کی وجہ سے صوبے کے ہسپتالوں، سکولوں،کالجز اور بنیادی ڈھانے پر کافی بوجھ پڑا ہے اس کے لیے وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبے کا بوجھ کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا ’’ ہمیں انفراسٹرکچر، تعلیمی اداروں کی بحالی اور ہسپتالوں میں ادویات سمیت دیگر سامان کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ ان اداروں کو بہتر بنانے کے سلسلے میں صوبے کے ساتھ تعاون کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں آنے والے قبائلی عوام کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کریں کیونکہ انہوں ملک نہیں بلکہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے گھربار چھوڑ ا ہے‘‘۔

خیبر پختونخوا میں شمالی وزیرستان کے پناہ گزینوں کے علاوہ وفاقی حکومت کے زیر انتظام دیگر قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے بھی رہائش پذیر ہیں۔ گورنر خیبر پختونخوا سردار مہتاب احمد خان اِن کی تعداد 20 لاکھ جبکہ سپیکر خیبر پختونخوا اسد قیصر30 لاکھ بتاتے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے نقل مکانی کرنے والوں کے ساتھ پاکستان میں سولہ لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور تقریباً 17 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین میں بھی زیادہ تر خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہیں۔