1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شرمين عبید چنوئی کا ايوارڈ ملک ميں خوشيوں کا باعث

29 فروری 2012

اکیڈمی ایوارڈز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی پاکستانی کی کاميابی کے بعد ملکی عوام ميں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بلاگز اور سوشل ميڈيا ويب سائٹس پر لوگوں کے مضامين اور پيغامات کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ اسی کاميابی کا مظہر ہے۔

https://p.dw.com/p/14CCd
تصویر: Fotolia/Claudia Paulussen

پاکستان سے تعلق رکھنے والی تينتيس سالہ فلمساز شرمین عبید چنوئی کی فلم ’سيونگ فيس‘ کو آسکر ايوارڈ سے نوازا گيا۔ امريکا کے شہر لاس اینجلس ميں چھبيس فروری کو منعقدہ تقريب ميں ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے شرمین چنوئی نے کہا کہ وہ اپنا ایوارڈ ان تمام پاکستانی خواتین کے نام کرتی ہيں جو معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ چنوئی نے اس فلم کے ليےکو ڈائريکٹر کے طور پر امريکی ڈينيل جنگ کی خدمات حاصل کيں تھيں۔ ان کی دستاويزی فلم جسے قلیل دورانیے کی فلموں کی کيٹيگری ميں نامزد کيا گيا تھا، پاکستان میں عورتوں پر تیزاب پھینکے جانے کے واقعات پر مبنی ہے۔ اس دستاويزی فلم ميں ایک پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر کی کاوشوں اور چہرے پر تيزاب پھينکے جانے کے واقعات سے متاثرہ دو خواتين کی کہانی دکھائی گئی ہے۔

شرمین عبید چنوئی کی اس کاميابی پر ملک کی عوام، سياستدان اور ديگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ خوش نظر آتے ہيں۔ سوشل ميڈيا کی ويب سائٹس پر لکھے جانے والے پيغامات اس حقيقت کی نشاندہی کرتے ہيں کہ ايک ايسے ملک ميں جہاں عام طور پر منفی خبريں ہی عوام کی توجہ کا مرکز بنتی ہيں، شرمين چنوئی کی کاميابی تازہ ہوا کے جھوکے کی مانند ہے۔

اسی طرح ايکسپريس ٹريبون نامی اخبار کے انٹرنيٹ ايڈيشن پر شائع ہونے والے اپنے بلاگ ميں آمنا قادر نامی بلاگر، فلمساز کو اپنا رول ماڈل قرار ديتی ہيں۔ انہوں نے مزيد لکھا، ’اس کاميابی کے ذريعے شرمين نہ صرف دنيائے فلم کا سب سے نامور ايوارڈ ہی گھر لائيں بلکہ انہوں نے ہميں يہ بھی دکھايا ہے ہم پاکستانی اپنے خوابوں کو بالکل سچ کر سکتے ہيں‘۔ آمنا قادر نے ستائيس فروری کو شائع شدہ اپنے اس بلاگ ميں نوجوان نسل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شرمين کی اس کاميابی کو مثال بناتے ہوئے ملک ميں موجود ان طبقوں کے ليے مہم شروع کريں جوکہ ظلم و ستم سہ رہے ہيں۔

ايکسپريس ٹريبون کے انٹرنيٹ ايڈيشن پر شائع ہونے والے اسی بلاگ ميں عرفان نامی شخص نے اس کاميابی کو منفی نقطہ نظر سے ديکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی طور پر پاکستان کی ساکھ ويسے ہی بری طرح متاثر ہے اور شرمين عبید چنوئی کی اس دستاويزی فلم کے ذريعے مغرب کے اس تاثر کو مزيد ہوا ملتی ہے کہ پاکستانی معاشرے ميں محض منفی رجحان ہی پایا جاتا ہے۔ عرفان نے اپنے خيالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا، ’مجھے اس دن بہت خوشی ہوگی جب کوئی پاکستانی ملک کے کسی مثبت پہلو کی نشاندہی کر کے يہ ايوارڈ جيتے اور يقين جانيں، پاکستان ميں بہت کچھ مثبت بھی ہو رہا ہے‘۔

ایوارڈز کی 84 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی پاکستانی نے يہ ايوارڈ حاصل کيا ہے
ایوارڈز کی 84 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی پاکستانی نے يہ ايوارڈ حاصل کيا ہےتصویر: Reuters

ايک اور بلاگر کنزہ طاہر نے ايوارڈ يافتہ شرمين چنوئی کو سراہتے ہوئے لکھا، ’شرمين نے راستے کھولے ہيں تاکہ ان راستوں پر چلا جا سکے‘۔ دودھ پتی بلاگ نامی ويب سائٹ پر شائع اس بلاگ ميں کنزہ طاہر نےيہ بھی لکھا ہے کہ فلمساز نے دہشت گردی اور ظالمانہ کارروائيوں سے متاثرہ افراد کو ايک نئی اميد دکھائی ہے۔

شرمین عبید چنوئی کی دستاويزی فلم اور اس کو ملنے والا ايوارڈ ملک کی خواتين کے مسائل کے حل کے ليے اہم ثابت ہو يا نہيں، يہ حقيقت ہے کہ اس کاميابی کی بدولت ملک ميں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ شرمين چنوئی کی فتح کو پاکستانی خواتين کی جانب سے اپنے آپ کو منوانے کی ايک اور مثال قرار دیا جا رہا ہے۔

رپورٹ: عاصم سليم

ادارت: عدنان اسحاق