1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے تمام شدت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں، پاکستانی طالبان

ندیم گِل7 اکتوبر 2014

پاکستانی طالبان نے شام اور عراق میں لڑنے والی اسلامی ریاست کی تحریک کے ساتھ اتحاد کی خبروں کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں ان کے بیان کو غلط انداز سے پیش کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1DRJK
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے روز اس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کا مقصد شام اور عراق میں مغربی مفادات کے خلاف لڑنے والے تمام اسلامی شدت پسندوں کے لیے حمایت کا اظہار تھا۔

شاہد اللہ شاہد نے پیر کو کسی نامعلوم مقام سے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا: ’’ذرائع ابلاغ کے بعض حصوں میں ہمارا بیان درست طور پر شائع نہیں کیا گیا۔ ہم شام یا عراق میں کسی مخصوص گروپ کی حمایت نہیں کر رہے؛ وہاں لڑنے والے تمام گروہ قابلِ احترام ہیں اور وہ سب ہمارے بھائی ہیں۔‘‘

روئٹرز کے مطابق ہفتہ چار اکتوبر کو شاہد اللہ شاہد نے کہا تھا کہ طالبان اسلامی ریاست کے ساتھ ’ہر ممکن تعاون‘ کریں گے۔ اس بیان کو ذرائع ابلاغ کے متعدد حصوں میں پاکستانی طالبان کے اسلامی ریاست کے ساتھ اتحاد کے طور پر رپورٹ کیا گیا تھا۔

Propagandabild IS-Kämpfer ARCHIV
شاہد اللہ شاہد نے شام اور عراق میں لڑنے والے تمام جہادیوں کو ’طالبان کے بھائی‘ قرار دیا ہےتصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael

روئٹرز کے مطابق ان دونوں گروپوں کے درمیان اتحاد اسلامی ریاست کے بڑھتے اثر و رسوخ کو ظاہر کر سکتا تھا جو پہلے ہی عراق اور شام کے متعدد علاقوں پر قابض ہے۔ یہ اتحاد مغربی طاقتوں کے لیے بھی مزید چیلنجز کھڑے کر سکتا تھا جو پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ میں اسلامی ریاست سے نبرد آزما ہیں۔

تاہم پیر کو شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ اس کا گروہ بدستور افغان طالبان کے رہنما ملا عمر کے ساتھ ہے۔ اس نے کہا: ’’ملا عمر ہمارا سربراہ ہے اور ہم اس کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘

ایک بیان میں اس نے پاکستان کے دارالحکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ فی الحال (پاکستانی طالبان) جہادی فرنٹ اسلام آباد کے کفر کے نظام کے خلاف کھڑا ہے۔‘‘

اس نے یہ بھی کہا کہ طالبان ملا عمر کی ہدایت پر کسی بھی گروپ کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔ اس نے کہا: ’’اگر ملا عمر ہمیں حکم دے تو ہم اپنے مجاہدین شام، عراق اور یمن یا دنیا میں کسی بھی محاذ پر بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

خیال رہے کہ ملا عمر دہشت گرد گروہ القاعدہ کے بعض اعلیٰ رہنماؤں کے قریب ہے۔ روئٹرز کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور اسلامی ریاست فنڈز کے حصول اور بھرتیوں کے حوالے سے ایک دوسرے کے مدِمقابل ہیں۔

اسلام آباد میں قائم تھِنک ٹینک فاٹا ریسرچ سیٹر کے سیف اللہ محسود کا کہنا ہے: ’’جو لوگ ملا عمر کے بجائے شام میں رابطے (اسلامی ریاست سے)کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں طالبان کے حلقوں میں زیادہ ہمدردی نہیں ملے گی۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں