1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں النصرہ فرنٹ مضبوط ہوتی ہوئی

عاطف بلوچ24 مارچ 2015

دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے وابستہ النصرہ فرنٹ شام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ چار سالوں کے دوران یہ انتہا پسند گروہ ترک سرحد سے لے کر وسطی شام تک فعال ہو چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ew5J
تصویر: Reuters/K. Ashawi

شامی صدر بشار الاسد کے خلاف فعال النصرہ فرنٹ ایک طرف تو اعتدال پسند باغیوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوئی ہے تو دوسری طرف یہ اپنی ایک خاص حکمت عملی کے تحت اقلیتی گروہوں کو اپنے ساتھ ملاتی جا رہی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ شامی خانہ جنگی میں بین الاقوامی برادری کی زیادہ تر توجہ اسلامک اسٹیٹ پر مرکوز رہی، جس کی وجہ ان جہادیوں کا بھیانک پراپیگینڈا قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم اس صورتحال میں النصرہ فرنٹ کو پنپنے کا موقع مل گیا۔

خبر رساں ادارے اے پی نے ناقدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ النصرہ فرنٹ کا اگلا محاذ اسرائیلی سرحد سے متصل گولان کے پہاڑی علاقے ہیں۔ اس اسلام پسند عسکری گروہ کے زیادہ تر ممبر ایسے شامی باشندے ہیں، جو شام میں قیام امن کے لیے صد بشار الاسد سے مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ، اعتدال پسند باغیوں، النصرہ فرنٹ اور اس کے اتحادیوں کی وجہ سے شام کا تنازعہ ایک انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے۔

Al-Nusra Front Kämpfer an der Front bei Aleppo 25.11.2014
النصرہ فرنٹ نے ادلب صوبے میں امریکا کے حمایت یافتہ دو باغی گروپوں کو شکست بھی دیتصویر: Reuters/H. Katan

لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ مشرق وسطیٰ امور کے ڈائریکٹر فواز جرجس کے بقول، ’’بہت زیادہ امکان ہے کہ النصرہ فرنٹ شام میں آئی ایس آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ) کو شکست دے دے گی، جس سے شامی عوام کی ایک جمہوری اور کثیر الجہتی معاشرے کے قیام کی خواہشات کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘‘

یاد رہے کہ اسلامک اسٹیٹ نے ہی 2012ء میں النصرہ فرنٹ کے قیام میں مدد کی تھی۔ اس وقت ان سنی انتہا پسند جہادیوں نے القاعدہ کے حامی اس گروہ کو نہ صرف اسلحہ فراہم کیا تھا بلکہ ان کی مالیاتی اور انسانی حوالے سے بھی مدد کی تھی۔ تاہم بعد ازاں 2013ء میں ان دونوں میں نظریاتی اور حکمت عملی کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات کے باعث علیحدگی ہو گئی تھی۔ ان دونوں اسلامی گروہوں کے الگ ہونے کے بعد النصرہ فرنٹ نے خاموشی کے ساتھ شام میں فعال مختلف چھوٹے باغی گروپوں کے ساتھ اتحاد بنا کر بشار الاسد کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے جدوجہد شروع کر دی تھی۔

النصرہ فرنٹ کی کامیاب پیشقدمی

حالیہ مہینوں کے دوران النصرہ فرنٹ نے ادلب صوبے میں امریکا کے حمایت یافتہ دو باغی گروپوں کو شکست دے دی تھی۔ اس صوبے کو حرکت حزم اور سیریئن انقلابی فرنٹ کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا اور انہیں امریکا کی حمایت بھی حاصل تھی لیکن النصرہ فرنٹ نے سلسلہ وار جھڑپوں کے بعد انہیں پسپا کر دیا۔ اس ناکامی کے بعد حرکت حزم تحلیل ہو گئی جبکہ سیریئن انقلابی فرنٹ کے رہنما جمال معروف ترکی فرار ہو گئے۔

Symbolbild IS Soldaten
اسلامک اسٹیٹ نے ہی 2012ء میں النصرہ فرنٹ کے قیام میں مدد کی تھیتصویر: picture alliance/ZUMA Press/Medyan Dairieh

ایک مغربی سفارتکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا ہے کہ شام کے شمال مغربی علاقوں میں فعال النصرہ فرنٹ کے جنگجو اعتدال پسند باغیوں کے علاوہ دمشق حکومت کی فورسز کے خلاف بھی مؤثر کارروائی کر رہے ہیں۔ مشرق وسطی امور کے ماہر اس سفارتکار نے مزید کہا کہ ان انتہا پسندوں نے وسطی شام کے علاوہ شمال مغربی علاقوں سمیت ادلب اور حما تک کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔

ان کامیابیوں کے ساتھ النصرہ فرنٹ مقامی آبادی کے خلاف مظالم ڈھانے کے عمل میں بھی تیزی لے آئی ہے۔ جنوری میں اس گروہ نے ادلب میں ایک خاتون کو سرعام گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ جسم فروشی کرتی تھی۔ اسی طرح یہ انتہا پسند گروہ شہریوں پر مختلف قسم کے تشدد کرنے کا مرتکب بھی ہوا ہے۔ لیکن النصرہ کے مظالم اسلامک اسٹیٹ کی پرتشدد کارروائیوں کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے منسلک فیصل عیتانی النصرہ کی پرتشدد کارروائیوں پرتبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’النصرہ فرنٹ کی طرف سے ادلب میں ایسے رویوں کی توقع کی جا سکتی ہے کیونکہ اس صوبے میں ان کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔‘‘